کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 35
کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں ، میں صرف اس کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف وحی کی جاتی ہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہنے کا بھی حکم دیا گیا: ﴿قُلْ اِِنِّی لَا اَمْلِکُ لَکُمْ ضَرًّا وَلَا رَشَدًاo قُلْ اِِنِّی لَنْ یُّجِیْرَنِی مِنَ اللّٰہِ اَحَدٌ وَلَنْ اَجِدَ مِنْ دُوْنِہٖ مُلْتَحَدًاo اِِلَّا بَلَاغًا﴾ (الجن: ۲۱۔ ۱۳) ’’کہہ دیجئے کہ یقینا میں نہیں اختیار رکھتا ہوں تمہیں نقصان پہنچانے کا اور نہ فائدہ دینے کا، کہہ دیجئے کہ مجھے اللہ سے کوئی بھی پناہ نہیں دے سکتا اور نہ میں اس کے سوا کوئی پناہ کی جگہ پاتا ہوں بجز پہنچا دینے کے۔‘‘ ’’الا‘‘ استثناء منقطع ہے، یعنی اللہ کے احکامات اور اس کے پیغامات پہنچا دینا ہی میرے ذمہ ہے۔ حاصل کلام یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے ہیں اور اس عبودیت کا تقاضا یہ ہے کہ ربوبیت کے امور میں سے آپ کا کسی بھی چیز میں کوئی حق نہ ہو۔ جب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عالم ہے تو پھر ان سے کمتر بندوں کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ یقینا وہ لوگ نہ تو اپنے لیے کسی نفع یا نقصان کے مالک ہیں اور نہ ہی دوسرے لوگوں کے لیے۔ اس سے ان لوگوں کی سفاحت وحماقت کھل کر سامنے آجاتی ہے جو آلام ومصائب میں اللہ کو چھوڑ کر ان لوگوں کو مشکل کشائی کے لیے پکارتے ہیں جن کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ وہ اولیاء اللہ ہیں ۔ [وَرَسُوْلُہ] … یہ بھی وہ عظیم وصف ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس سے کوئی بھی متصف نہیں ہوگا، اس لیے کہ آپ خاتم النبیّین ہیں ۔ آپ اللہ تعالیٰ کے وہ رسول ہیں کہ جس مقام ومنصب پر آپ فائز ہوئے بنی نوع انسان میں سے کوئی دوسرا اس تک رسائی حاصل نہ کر سکا، بلکہ جہاں تک ہمیں علم ہے کوئی فرشتہ بھی وہاں تک نہ پہنچ سکا، آپ ساتویں آسمان سے بھی اوپر تک پہنچے، اس جگہ تک پہنچے جہاں آپ نے قضا و قدر کے قلموں کے چلنے کی آواز تک سماعت فرمائی، اللہ تعالیٰ براہ راست آپ سے ہمکلام ہوا، آپ کو اپنی ساری مخلوق کی طرف رسول بنا کر بھیجا اور ایسے بڑے بڑے معجزات کے ساتھ آپ کی تائید فرمائی جو آپ سے قبل کسی بندہ بشر یا کسی رسول کا مقدر نہ بن سکے۔ وہ معجزہ قرآن عظیم ہے، جس کی انبیاء سابقین کے معجزات میں کوئی نظیر نہیں ملتی، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَ قَالُوْا لَوْ لَآ اُنْزِلَ عَلَیْہِ اٰیٰتٌ مِّنْ رَّبِّہٖ قُلْ اِنَّمَا الْاٰیٰتُ عِنْدَ اللّٰہِ وَ اِنَّمَآ اَنَا نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌo اَوَ لَمْ یَکْفِہِمْ اَنَّآ اَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْکِتٰبَ یُتْلٰی عَلَیْہِمْ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَرَحْمَۃً وَّ ذِکْرٰی لِقَوْمٍ یُّؤْمِنُوْنَo﴾ (العنکبوت: ۵۰۔۵۱) ’’اور وہ کہتے ہیں اس پر اس کے رب کی طرف سے نشانیاں کیوں نہیں اتاری گئیں ؟ آپ فرما دیجئے کہ نشانیاں تو اللہ کے پاس ہیں اور میں تو صرف صاف صاف ڈرانے والا ہوں ، کیا ان کے لیے یہ (معجزہ) کافی نہیں ہے کہ