کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 278
[تَکْلِیْمًا]… مصدر مؤکد ہے، جس کے بارے میں علماء فرماتے ہیں کہ یہ مجاز کے احتمال کو باقی نہیں رہنے دیتا۔ اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ حقیقی طور پر موسیٰ علیہ السلام سے ہمکلام ہوا۔ اگر آپ یہ کہیں کہ: جاء زید۔’’زید آیا‘‘ تو اس سے یہ بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ وہ ذاتی طور پر آیا، اور اس معنی کا بھی احتمال ہے کہ اس کی خبر آئی، اگرچہ یہ ظاہر کے خلاف ہے، لیکن اگر آپ تاکید کے انداز میں یوں کہیں : جاء زید نفسہ،یا جاء زید زید۔ تو اس سے مجاز کی نفی ہو جائے گی۔ پس اللہ تعالیٰ کا حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کلام کرنا، حروف اور آواز کے ساتھ حقیقی کلام تھا جسے انہوں نے اپنے کانوں سے سنا، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے درمیان بات چیت ہوئی، جس طرح کہ سورئہ طہٰ وغیرہا میں اس کی تفصیل موجود ہے۔ چھٹی آیت:﴿مِنْہُمْ مَّنْ کَلَّمَ اللّٰہُ﴾ (البقرۃ: ۲۵۳) ’’ان میں سے کچھ ایسے بھی جن سے اللہ تعالیٰ ہمکلام ہوا۔‘‘ شرح:…[مِنْہُمْ]… یعنی رسولوں میں سے۔ [ مَّنْ کَلَّمَ اللّٰہُ]… اسم کریم ﴿اللّٰہُ﴾ کَلَّم کا فاعل ہے، اور اس کا مفعول محذوف ہے، یعنی: کلمہ اللّٰہ۔ ساتویں آیت: ﴿وَ لَمَّا جَآئَ مُوْسٰی لِمِیْقَاتِنَا وَ کَلَّمَہٗ رَبُّہٗ﴾ (الاعراف: ۱۴۳) ’’اور جب آیا موسیٰ ہمارے وقت پر اور کلام کیا اس سے اس کے رب نے۔‘‘ شرح:…اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ کلام کا تعلق اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ساتھ ہے اور یہ اس لیے کہ کلام موسیٰ علیہ السلام کی آمد پر ہوا، اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ کا کلام اس کی مشیت سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کے ساتھ ان لوگوں کا قول باطل قرار پاتا ہے جو یہ کہتے ہیں کہ اللہ کا کلام وہ معنی ہے جو قائم بالنفس ہے اور اس کا رب تعالیٰ کی مشیت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ نیز اس سے بعض لوگوں کے اس گمان کی بھی تردید ہوتی ہے کہ صرف حضرت موسیٰ نے اللہ تعالیٰ سے کلام کیا تھا، جس کے لیے انہوں نے کلام اللہ ﴿وَکَلَّمَ اللّٰہُ مُوْسٰی تَکْلِیْمًاo﴾ (النساء: ۱۶۴) میں تحریف کرتے ہوئے اسم کریم کو منصوب پڑھا اور موسیٰ کو فاعل قرار دے دیا۔ آٹھویں آیت: ﴿وَ نَادَیْنٰہُ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ الْاَیْمَنِ وَ قَرَّبْنٰہُ نَجِیًّاo﴾ (مریم: ۵۲) ’’اور ہم نے اسے کوہ طور کی دائیں جانب سے بلایا اور اسے سرگوشی کے لیے قریب کیا۔‘‘ شرح:…[نَادَیْنٰہُ]… فاعل کی ضمیر اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹتی ہے، جبکہ مفعول کی موسیٰ کی طرف۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو بلایا۔ [نَجِیًّا]… حال ہے، اور یہ فعل بمعنی مفعول ہے۔ مناداۃ اور مناجاۃ میں فرق یہ ہے کہ مناداۃ بعید کے لیے ہوتی ہے اور مناجاۃ قریب کے لیے اور دونوں ہی کو کلام