کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 277
[حَدِیْثًا]، [قِیْلًا]…﴿اَصْدَقُ﴾ کی تمییز ہیں ۔ ان دونوں آیتوں میں اثبات کلام ﴿اَصْدَقُ﴾ سے ماخوذ ہے، اس لیے کہ صدق کے ساتھ کلام کو ہی موصوف کیا جاتا ہے اسی طرح اثبات کلام ﴿حَدِیْثًا﴾ سے بھی ماخوذ ہے، اور یہ اس لیے کہ حدیث کلام سے عبارت ہے، نیز یہ ﴿قِیْلًا﴾ سے بھی ماخوذ ہے، جس سے مراد قول ہے اور قول صرف لفظ کی صورت میں ہوتا ہے۔ اور اس میں کسی بھی طرح سے کذب کا کوئی وجود نہیں ہے۔ تیسری آیت: ﴿وَ اِذْ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ﴾ (المائدۃ: ۱۱۶) ’’اور جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے عیسیٰ بن مریم!‘‘ شرح:…[یٰعِیْسَی]… قول کا مقول ہے۔ اس آیت میں اس بات کا اثبات ہے کہ اللہ تعالیٰ فرمایا کرتا ہے اور یہ کہ اس کا قول سنا جا سکتا ہے اور یہ کہ اس کا قول کلمات اور جملوں پر مشتمل ہوتا ہے، اور حروف سے تشکیل پاتا ہے۔ لہٰذا اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ حقیقی کلام کے ساتھ تکلم فرماتا ہے، جب چاہے، جسے چاہے اور جو چاہے، حروف کے ساتھ اور آواز کے ساتھ، اور اس کی آواز مخلوق کی آوازوں سے مماثل نہیں ہے اور اس کی دلیل یہ ارشاد ربانی ہے: ﴿وَ اِذْ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ﴾ یہ حروف ہیں اور آواز بھی، اس لیے کہ اللہ نے جو کچھ فرمایا اسے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سن رہے تھے، مگر اس کی آواز مخلوق کی آوازوں کے مماثل نہیں ہے، اس لیے کہ:﴿لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ وَہُوَ السَّمِیْعُ البَصِیْرُ﴾ (الشوریٰ: ۱۱) چوتھی آیت: ﴿وَ تَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ صِدْقًا وَّعَدْلًا﴾ (الانعام: ۱۱۵) ’’اور تیرے رب کے کلمات سچائی اور عدل میں پورے ہیں ۔‘‘ شرح:…[کَلِمَتُ] مفرد ہے، دوسری قراء ت میں جمع کے ساتھ (کلمات) ہے۔ اور دونوں کا معنی ایک ہی ہے۔ اس لیے کہ (کلمہ) مفرد مضاف ہے، لہٰذا یہ عام ہے۔ اللہ تعالیٰ کے کلمات صدق اور عدل میں پورے ہیں ، صدق کے ساتھ موصوف چیز خبر ہوتی ہے۔ جبکہ عدل کے ساتھ حکم موصوف ہوتا ہے، اسی لیے مفسرین فرماتے ہیں [1] اس کے کلمات اخبار میں سچے اور احکام میں عادلانہ ہیں ۔ اس کی فراہم کردہ اخبار کو کسی بھی طرح سے کذب لاحق نہیں ہو سکتا اور اس کے احکام ہر طرح کے ظلم وجور سے مبرا ہیں ۔ اس جگہ اللہ تعالیٰ نے اپنے کلمات کو صدق اور عدل کے ساتھ موصوف کیا، لہٰذا وہ اقوال ہیں ، اس لیے کہ قول پر ہی صدق یا کذب کا حکم لگایا جا سکتا ہے۔ پانچویں آیت: ﴿وَ کَلَّمَ اللّٰہُ مُوْسٰی تَکْلِیْمًاo﴾ (النساء: ۱۶۴) ’’اور اللہ موسیٰ سے ہم کلام ہوا۔‘‘ شرح:…[اَللّٰہُ]… فاعل ہے، کلام کا صدور اس سے ہوا ہے۔
[1] ملاحظہ ہو: تفسیر ابن کثیر: ۲/ ۲۶۹۔