کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 275
معصیت سے روکنا اور اسے قضاء وقدر پر ناراض ہونے سے باز رکھنا۔ چاہے یہ سب کچھ زبان کے ساتھ ہو، دل کے ساتھ ہو یا جوارح کے ساتھ۔ صبر کی بہترین قسم رب تعالیٰ کی اطاعت پر صبر کرنا اور پھر اس کی معصیت سے صبر کرتا ہے، اس لیے کہ انسان کو ان دونوں چیزوں میں اختیار حاصل ہے، وہ چاہے تو اوامر شرعیہ کی تعمیل کرے اور اگر نہ چاہے تو نہ کرے، اسی طرح اگر وہ چاہے تو محرمات شرعیہ کو ترک کر دے اور اگر چاہے تو ان کا ارتکاب کرتا رہے کہ قضا و قدر پر صبر کرنا صبر کاآخری مرتبہ ہے، اس لیے کہ اگر آپ چاہیں یا نہ چاہیں تقدیر نے واقع ہو کر رہنا ہے، اگر آپ چاہیں تو باعزت لوگوں کی طرح صبر کر لیں اور اگر چاہیں تو جانوروں کی طرح بے بس ہو کر خاموش ہو رہیں ۔
صبر بڑا بلند پایہ مقام ومرتبہ ہے جو کسی قابل صبر چیز پر صبر کرنے سے ہی حاصل ہو سکتا ہے، مگر جن کی راہوں پر پھول بچھے ہوں اور لوگ ان کے اشارہ ابرو کے منتظر ہوں ، تو یہ اعزاز ان کا مقدر بننے والا نہیں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو شاکر بھی بنایا اور صابر بھی۔
شاکر تو یوں کہ آپ اس قدر طویل قیام فرماتے کہ پاؤں پر ورم آجاتا اور پھر فرماتے: ’’کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں ؟‘‘[1]
صابر یوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر طرح کی اذیت پر صبر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ صرف یہ کہ اپنی قوم کی طرف سے بلکہ یہودیوں اور منافقوں کی طرف سے بھی اذیتیں دی گئیں مگر آپ نے کبھی بھی صبر کا دامن اپنے ہاتھ سے نہ چھوڑا۔
ساتویں آیت:﴿کَمْ مِّنْ فِئَۃٍ قَلِیْلَۃٍ غَلَبَتْ فِئَۃً کَثِیْرَۃً بِاِذْنِ اللّٰہِ وَاللّٰہُ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ﴾ (البقرہ:۲۴۹) ’’کتنی دفعہ ایسا ہوا کہ ایک چھوٹی سی جماعت اللہ کے حکم سے بہت بڑی جماعت پر غالب آگئی اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔‘‘
شرح:…[کَمْ]… خبریہ ہے اور تکثیر کا فائدہ دے رہا ہے، یعنی کئی دفعہ ایسا ہوا کہ چھوٹی سی جماعت بہت بڑی جماعت پر غالب آگئی، یا متعدد چھوٹی چھوٹی جماعتیں ، متعدد بڑی بڑی جماعتوں پر غالب آگئیں ، مگر اپنی قوت کے ساتھ نہیں ، بلکہ اللہ تعالیٰ کے اذن یعنی اس کی قدرت اور اس کے ارادہ سے غالب آئیں ۔ جنگ بدر میں مسلمانوں کی تھوڑی سی جماعت اپنے دشمنوں پر غالب آگئی، حالانکہ ان کی تعداد بہت زیادہ تھی۔
جنگ بدر میں شریک ہونے والے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جنگ کرنے کے ارادے سے نہیں بلکہ ابوسفیان کے تجارتی قافلہ کے ساز وسامان پر قبضہ کرنے کے لیے نکلے تھے۔ جب ابوسفیان کو ان کی آمد کا علم ہوا تو اس نے یہ اعلان کرنے کے لیے ایک شخص کو مکہ مکرمہ بھیجا کہ اپنا قافلہ بچا لو، محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھی اسے لوٹنے کے لیے مدینہ سے نکل پڑے ہیں ۔ یاد رہے کہ یہ قافلہ قریش مکہ کے بہت زیادہ سامان خوردونوش پر مشتمل تھا، پیغام ملتے ہی مکہ کے بڑے برے رؤساء اور سردار اپنی شان وشوکت اور قوت کا مظاہرہ کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے، یہاں تک کہ ابوجہل کہنے لگا: اللہ کی قسم! ہم واپس نہیں لوٹیں گے، یہاں تک کہ بدر کے مقام پر پہنچ کر وہاں تین دن قیام کریں گے اس دوران ہم اونٹ ذبح کریں گے، شراب نوشی
[1] یہ حدیث صحیح بخاری و صحیح مسلم کی ہے اور اس کی تخریج پہلے گزر چکی ہے۔