کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 274
شرح:…جب اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون رحمہم اللہ کو فرعون کے پاس جانے کا حکم دیا تو فرمایا:
﴿اِذْہَبَآ اِلٰی فِرْعَوْنَ اِنَّہٗ طَغٰیo فَقُوْلَا لَہٗ قَوْلًا لَّیِّنًا لَّعَلَّہٗ یَتَذَکَّرُ اَوْ یَخْشٰیo قَالَا رَبَّنَآ اِنَّنَا نَخَافُ اَنْ یَّفْرُطَ عَلَیْنَآ اَوْ اَنْ یَّطْغٰیo قَالَ لَا تَخَافَآ اِنَّنِیْ مَعَکُمَآ اَسْمَعُ وَاَرٰیo﴾ (طٰہٰ: ۴۳۔ ۴۶)
’’تم دونوں فرعون کے پاس جاؤ، یقینا وہ سرکش ہوگیا ہے، اس کے ساتھ نرمی سے بات کرنا، شاید وہ غور کرے یا ڈر جائے اس پر وہ دونوں کہنے لگے: یقینا ہم اس بات سے ڈرتے ہیں کہ وہ ہم پر زیادتی کرے گا یا سرکش ہو جائے گا، اللہ نے فرمایا: تم ڈرو نہیں ، یقینا میں تمہارے ساتھ ہوں سنتا ہوں اور دیکھتا ہوں ۔‘‘
[اَسْمَعُ وَ اَرٰی]… جملہ مستانفہ ہے، جس سے مقصود اس معیت خاصہ جو کہ سمع ورؤیت سے عبارت ہے، کے مقتضیٰ کو بیان کرتا ہے اور یہ سمع ورؤیت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان دونوں کی نصرت وتائید اور اس فرعون سے بچاؤ کا تقاضا کرتی ہیں جس کے بارے میں انہوں نے اپنے اس خدشے کا اظہار کیا تھا: ’’کہ وہ ہم پر زیادتی کرے گا یا سرکشی پر اتر آئے گا۔‘‘
پانچویں آیت: ﴿اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّ الَّذِیْنَ ہُمْ مُّحْسِنُوْنَo﴾ (النحل: ۱۲۸) ’’یقینا اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں اور نیکو کاروں کے ساتھ ہے۔‘‘
شرح:…اس سے قبل فرمایا گیا ہے:
﴿وَ اِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِہٖ وَ لَئِنْ صَبَرْتُمْ لَہُوَ خَیْرٌ لِّلصّٰبِرِیْنَo وَ اصْبِرْ وَ مَا صَبْرُکَ اِلَّا بِاللّٰہِ وَ لَا تَحْزَنْ عَلَیْہِمْ وَ لَا تَکُ فِیْ ضَیْقٍ مِّمَّا یَمْکُرُوْنَo﴾ (النحل: ۱۲۶۔ ۱۲۷)
’’اور اگر تم بدلہ لینا چاہو تو انہیں اتنا ہی دکھ پہنچاؤ جتنا دکھ انہوں نے تمہیں پہنچایا ہے اور اگر تم صبر کرو تو یہ صبر کرنے والوں کے حق میں بہت ہی اچھا ہے، آپ صبر کیے رہیے اور آپ کا صبر تو بس اللہ ہی کی توفیق سے ہے اور آپ ان پر غم نہ کریں اور نہ ان چالوں سے جو یہ لوگ چلتے رہتے ہیں تنگ دل ہوں ۔‘‘
مجرم کو اس کے جرم کے مطابق سزا دینا تقویٰ ہے، اس سے زیادہ ظلم وعدوان، اور معاف کر دینا احسان ہے، اسی لیے اللہ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ تقویٰ شعار لوگوں اور محسنین کے ساتھ ہے۔
یہ معیت خاصہ ہے جو کہ صفت کے ساتھ مقید ہے، یعنی ہر وہ شخص جس کا شمار محسنین اور متقی لوگوں میں ہوگا اللہ اس کے ساتھ ہوگا۔ اس آیت سے ہمیں تقویٰ واحسان اختیار کرنے کا درس ملتا ہے، اس لیے کہ ہم میں سے ہر شخص کی آرزو ہوتی ہے کہ اللہ اس کے ساتھ رہے۔
چھٹی آیت: ﴿وَ اصْبِرُوْا اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ﴾ (الانفال: ۴۶) ’’اور صبر کرو یقینا اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘
شرح:…ہم عرض کر چکے ہیں کہ صبر کا مطلب ہے نفس کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت گزاری کا پابند بنانا، اسے اللہ تعالیٰ کی