کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 273
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تعاقب کرتے ہوئے غار ثور کے سامنے کھڑے ہوگئے تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ عرض کرنے لگے: ’’اللہ کے رسول! اگر ان میں سے کسی نے اپنے پاؤں کی طرف دیکھا تو وہ ہمیں دیکھ لے گا۔‘‘[1] یعنی ہم خطرے میں ہیں ۔ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی فرعون اور آل فرعون سے بھاگ کر سمندر کے قریب پہنچے اور پھر فرعونی سپاہ کو اپنا تعاقب کرتے دیکھا تو کہنے لگے:﴿اِِنَّا لَمُدْرَکُوْنَo﴾ (الشعراء: ۶۱) ’’یقینا ہم پکڑے گئے۔‘‘تو موسیٰ علیہ السلام کہنے لگے: ﴿کَلَّا اِِنَّ مَعِی رَبِّیْ سَیَہْدِیْنِی﴾ (الشعراء: ۶۲) ’’ہرگز نہیں ، میرے ساتھ میرا رب ہے، وہ عنقریب میری راہنمائی کرے گا۔‘‘ جبکہ اس موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ﴿لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا﴾ ’’غم نہ کر یقینا اللہ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘ یوں آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے اپنے ساتھی کو مکمل طور پر امن ہونے کا یقین دلایا اور اس کی وجہ یہ بتائی کہ: ’’ہمارا اللہ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘ اس جگہ ﴿لَا تَحْزَنْ﴾ کی نہی اس غم کو بھی شامل ہے، جو لاحق ہو چکا اور اس غم کو بھی جو آئندہ چل کر مستقبل میں لاحق ہونے والا تھا۔ حزن: غم کی شدت کو کہا جاتا ہے۔ [اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا]… یہ معیت خاصہ ہے، جو کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مقید ہے۔ جو کہ ازروئے علم وقدرت اور سمع وبصر کے احاطہ کے ساتھ تائید ونصرت کی بھی متقاضی ہے، چنانچہ کفار ومشرکین غار ثور کے اوپر کھڑے رہنے کے باوجود انہیں دیکھ نہ سکے اور یوں اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھوں کو اندھا کر کے انہیں ناکام واپس جانے پر مجبور کر دیا، اور یہ جو بیان کیا جاتا ہے کہ اس دوران مکڑی نے غار کے دروازے پر جالا بن دیا اور ایک کبوتری نے وہاں انڈے دے دیئے اور جب مشرکین نے یہ کیفیت دیکھی تو وہ واپس مڑ گئے۔ تو یہ واقعہ غیر معتبر ہے۔[2] اللہ تعالیٰ کی نصرت وحمایت کا مزہ تو تب ہے کہ غار کا راستہ صاف طور پر کھلا ہو اور اس تک رسائی میں کوئی حسی مانع بھی موجود نہ ہو مگر کفار پھر بھی اس میں موجود کسی کو دیکھ نہ سکیں اور یوں ناکام وخاسر سر پر خاک ڈالتے واپس لوٹ جائیں ۔ کبوتری کا انڈے دینا اور مکڑی کا جالا بننا، بعید تو ہے ہی یہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی اس بات کے بھی خلاف ہے کہ ’’اگر ان لوگوں میں سے کسی نے اپنے پاؤں کی طرف دیکھا تو وہ ہمیں دیکھ لے گا۔‘‘ بعض مؤرخین (عفا اللّٰہ عنہم)کبھی کبھی ایسی عجیب وغریب، شاذ اور منکر باتیں بھی لکھ دیا کرتے ہیں ، جنہیں نہ تو عقل قبول کرتی ہے اور نہ ہی ازراہ نقل ان کی صحت ثابت ہوتی ہے۔ چوتھی آیت: ﴿اِنَّنِیْ مَعَکُمَآ اَسْمَعُ وَ اَرٰی﴾ (طٰہٰ: ۴۶) ’’یقینا میں تمہارے ساتھ ہوں سنتا اور دیکھتا ہوں ۔‘‘
[1] صحیح بخاری: ۳۶۵۳۔ صحیح مسلم: ۲۳۸۱ عن انس بن مالک رضی اللّٰہ عنہ ۔ [2] ہیثمی اسے مجمع: ۶/ ۵۳۔ میں بزار اور طبرانی کی طرف منسوب کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’اس کی سند میں کچھ راویوں کو میں نہیں جانتا۔‘‘ اسے ابن سعد نے الطبقات: ۱/ ۲۲۹ میں روایت کیا ہے، شیخ البانی نے اسے ضعیف کہا ہے، الضعیفۃ: ۱۱۲۸۔