کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 270
اس کے برعکس حلولیہ کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ ذاتی طور پر ہر جگہ ہمارے ساتھ ہے، آپ مسجد میں ہوں یا بازار میں ، گھر میں ہوں یا گھر سے باہر، وہ ہر جگہ آپ کے ساتھ ہے، حتیٰ کہ اگر آپ غسل خانے میں ہوں گے تو اللہ تعالیٰ اس جگہ بھی آپ کے ساتھ ہوگا۔
بحث ششم:… حلولیہ کا شبہ اور ان کی تردید:
حلولیہ اس شبہ میں گرفتار ہیں کہ ان کا یہ عقیدہ کہ اللہ ذاتی طور پر ہر جگہ ہمارے ساتھ ہے، قرآنی الفاظ ﴿وَہُوَ مَعَکُمْ﴾ کے ظاہری مفہوم پر مبنی ہے اس لیے کہ ﴿ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ﴾،﴿ثُمَّ اسْتَوٰی﴾، ﴿یَعْلَمُ﴾، ﴿وَہُوَ مَعَکُمْ﴾ (الحدید: ۴) کی تمام ضمیریں اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹتی ہیں ، جب اللہ ہمارے ساتھ ہے تو ہمارے نزدیک اس کا معروف مفہوم کسی جگہ ایک ساتھ ہونا اور باہم اختلاط ہے۔
ان لوگوں کی تردید کئی وجوہ سے ممکن ہے:
اولاً: اس آیت کا ظاہر وہ نہیں ہے جو تم نے بتایا ہے، اس لیے کہ اگر ایسا ہوتا تو آیت میں تناقض ہوتا، بایں طور کہ وہ عرش پر مستوی بھی ہے، اور ہر جگہ ہر انسان کے ساتھ بھی۔ جبکہ کلام اللہ میں تناقض کا پایا جاتا امر مستحیل ہے۔
ثانیاً: تمہارا یہ کہنا غلط ہے کہ ’’معیت کا مفہوم صرف کسی جگہ میں مخالطت یا مصاحبت ہے‘‘ عربی لغت میں معیت مطلق مصاحبت سے عبارت ہے اور یہ اپنے مدلول کے اعتبار سے تمہارے زعم سے کہیں زیادہ وسعت کی حامل ہے۔
معیت کبھی اختلاط کی متقاضی ہوتی ہے، کبھی مصاحبت فی المکان کی اور کبھی مطلق مصاحبت کی، اگرچہ مکان مختلف ہو۔
۱۔ اختلاط کی متقاضی معیت کی مثال کسی کا یہ کہنا ہے: مجھے پانی کے ساتھ دودھ پلائیں ، یعنی پانی ملا دودھ پلائیں ۔
۲۔ مصاحبت فی المکان کی متقاضی معیت کی مثال آپ کا یہ قول ہے: میں نے فلاں شخص کو فلاں شخص کی معیت میں پایا وہ اکٹھے چلتے اور اکٹھے پڑاؤ کرتے ہیں ۔
۳۔ اس معیت کی مثال جو نہ تو اختلاط کا تقاضا کرتی ہے اور نہ مشارکت فی المکان کا، کسی کا یہ قول ہے: فلاں شخص اپنے لشکر کے ساتھ ہے، حالانکہ وہ کنٹرول روم میں بیٹھا اسے ہدایات دے رہا ہوتا ہے، اس مثال میں نہ تو اختلاط ہے۔ اور نہ جگہ میں مشارکت۔
کہا جاتا ہے: فلاں شخص کی بیوی اس کے ساتھ ہے، حالانکہ وہ مشرق میں ہوتی ہے اور اس کا خاوند مغرب میں ۔ جب یہ کہا جاتا ہے: ﴿اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا﴾ (النحل: ۱۲۸) ’’یقینا اللہ تعالیٰ پرہیز گاروں کے ساتھ ہے۔‘‘ تو یہ ارشاد مکان میں اختلاط یا مشارکت کا متقاضی نہیں ہے، بلکہ یہ ایسی معیت ہے جو اللہ کے شایان شان ہے اور اس کا مقتضی تائید ونصرت ہے۔
ثالثاً: اللہ تعالیٰ کو جگہ جگہ موجود تسلیم کرنا اس کی تنقیص کے مترادف ہے، وہ تو اپنی تعریف کرتے ہوئے یہ بتانا چاہتا ہے کہ میں اپنے عرش پر مستوی ہونے کے باوجود اپنی مخلوق کے ساتھ ہوں وہ جس قدر بھی نیچے کیوں نہ ہو، مگر جب تم اسے عرش