کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 27
بندہ مومن کے، اس قسم کی باتیں تو کوئی عاقل شخص بھی نہیں کر سکتا لیکن… جس شخص کو اللہ روشنی نہ دے اس کے لیے کوئی روشنی نہیں ہوسکتی۔ بصیرت سے عاری اور بصارت سے محروم اندھے انسان جیسا ہے، جس طرح آنکھوں کے اندھے کو سورج کے سامنے بھی کھڑا کر دیں تو وہ اسے دیکھ نہیں سکے گا، اسی طرح اللہ جس کسی سے اس کی بصیرت سلب کر لے اگر وہ حق کے انوار کے سامنے بھی کھڑا ہو جائے تو وہ انہیں دیکھنے سے محروم رہے گا۔ والعیاذ باللّٰہ۔ ہمیں ہمیشہ اللہ عزوجل سے دین اسلام پر ثابت قدم رہنے کی توفیق کا خواستگار رہنا چاہیے اور یہ کہ وہ ہمیں ہدایت عطا فرمانے کے بعد ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ فرمائے، اس لیے کہ معاملہ انتہائی سنگین ہے۔ شیطان ابن آدم پر ہرطرف سے اور ہر طرح سے حملہ آور ہوتا رہتا ہے ، اسے اس کے دین وعقیدہ اور کتاب و سنت کے حوالے سے شکوک و شبہات میں مبتلا کرتا رہتا ہے۔ لیکن بحمد اللہ تعالیٰ جب بھی کسی نے دین اسلام میں کسی بدعت کو ایجاد کیا، اللہ رب العزت نے اپنے فضل و کرم سے اپنے کسی بندے کو یہ ذمہ داری تفویض کی کہ وہ حق و صداقت کے ساتھ اس کی تردید کا فریضہ سر انجام دے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ﴾ (الحجر:۹) ’’بیشک ہم نے ہی اس ذکر کو اتارا اور بے شک ہم ہی اس کی حفاظت فرمائیں گے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس ذکر کی حفاظت کا یہ بھی ایک طریقہ ہے، نیز اللہ تبارک وتعالیٰ کی حکمت کا تقاضا بھی یہی ہے، اس لیے کہ اس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین قرار دیا، جب رسالت محمدیہ کو رہتی دنیا تک باقی رہنا ہے تو اس سے یہ لازم قرار پاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کے تقاضوں کے مطابق بدعت کے ظہور کے وقت کسی ایسے بندے کی تعیین فرمائے جو بدعت کی حقیقت کو آشکارا کرتے ہوئے اس کے مفاسد کو اجاگر کرے، یہی حاصل زندگی ہے۔ اسی لیے میں آپ سے کہتا رہتا ہوں کہ ہمیشہ علم کی جستجو میں لگے رہا کریں ، اس لیے کہ اگر ہم کتاب و سنت پر مبنی علم سے مسلح نہ ہوئے تو مستقبل میں ہمارے اس ملک میں ہم پر بھی وہ آفت ٹوٹ سکتی ہے جو کہ دیگر ملکوں پر ٹوٹ چکی ہے، اس وقت اعدائے اسلام ہمارے ملک کو نشانے پر رکھ کر اس پر مسلسل تیر اندازی کر رہے ہیں تاکہ وہ ہمارے ہم وطنوں کو گمراہ کر سکیں ۔ دریں حالات تمہارا علم سے مسلح ہونا از حد ضروری ہے، تاکہ تم اپنے دین کے بارے میں مکمل بصیرت حاصل کر سکو اور اللہ تعالیٰ کے دشمنوں سے اپنی زبانوں اور قلموں کے ساتھ جہاد کر سکو۔ یہ جمیع بدعات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بعد عام ہوئیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین ان امور میں بحث نہیں کیا کرتے تھے، وہ کتاب و سنت کے ظاہری مفہوم کو اپناتے اور فطری تقاضوں کی روشنی میں فہم دین حاصل کرتے بعد ازاں جب یہ امور مبتدعین کے سامنے آئے تو انہوں نے اللہ کے دین میں بدعات کو رواج دینا شروع کر دیا، یہ بدعات سازی یا تو ان کی کم علمی کا نتیجہ تھی، یا ان کے فہم میں کمی تھی یا پھر وہ بد ارادہ تھے جس کی وجہ سے انہوں نے دین میں بگاڑ پیدا کر دیا۔ لیکن جیسا کہ ہم نے کہا: اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم اور حکمت بالغہ سے ہر بدعت کی تردید اور اس کی سینہ چاکی کے لیے اپنے بندوں میں سے کسی بندہ خاص کو متعین فرما دیا کرتا ہے۔