کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 269
﴿اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ﴾ پڑھ رہے ہوتے ہیں ۔جنہیں اللہ تعالیٰ یہ جواب دیتا ہے: ’’یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان نصف نصف ہے۔‘‘[1]
گویا کہ اللہ تعالیٰ کا بیک وقت حقیقتاً ہمارے ساتھ ہونا اور حقیقتاً اپنے عرش پر موجود ہونا ممکن ہے، ان دونوں میں تعارض صرف انہیں لوگوں کو نظر آئے گا، جو اللہ تعالیٰ کو اس کی مخلوق سے مماثل قرار دینا چاہیں گے اور اللہ کی معیت کو اس کی مخلوق کی معیت جیسی تسلیم کریں گے۔
مذکورہ بالا سطور میں ہم نے یہ بات واضح کر دی کہ علو اور معیت کی نصوص میں تطبیق دینا ممکن ہے اگر یہ حقیقت آپ پر واضح ہوگئی تو بہت خوب، وگرنہ بندہ مومن پر یہ کہنا واجب ہے کہ میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لایا، اور میں نے اس بات کی تصدیق کی جو خود اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے بارے میں فرمائی یا اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں فرمائی۔ اسے اس کا انکار کرتے ہوئے یہ کہنے کا کوئی حق نہیں کہ: بھلا یہ کس طرح ممکن ہے؟
اگر وہ یہ سوال کرے گا تو اس سے کہا جائے گا کہ تیرا یہ سوال کرنا بدعت ہے، اس لیے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال نہیں کیا، حالانکہ وہ تجھ سے کہیں بہتر تھے اور جن سے وہ سوال کر سکتے تھے، وہ تیرے مسؤل سے کہیں زیادہ علم رکھنے والے، زیادہ سچے، زیادہ خیر خواہ اور زیادہ فصیح المقال تھے، ان کی تصدیق کیجئے اورکس طرح؟ اور کیونکر؟ کے الفاظ سے گریز کیجئے۔ یہ ایمان کا تقاضا ہرگز نہیں ، ایمان صرف تسلیم ورضا سکھاتا ہے۔
مندرجہ ذیل ارشاد ربانی میں غور کیجئے:
﴿ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ یَعْلَمُ مَا یَلِجُ فِی الْاَرْضِ وَمَا یَخْرُجُ مِنْہَا وَمَا یَنْزِلُ مِنْ السَّمَآئِ وَمَا یَعْرُجُ فِیْہَا﴾ (الحدید: ۴)
آیت کی تمام ضمیریں اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹتی ہیں ، اسی طرح ﴿وَہُوَ مَعَکُمْ﴾ (الحدید: ۴) کی ضمیر کا مرجع بھی ذات باری تعالیٰ ہے۔ ازروئے ایمان ہم پر آیت کے ظاہر پر ایمان لانا واجب ہے۔ ہمیں یقین کی حد تک یہ معلوم ہونا
چاہیے کہ یہ معیت اس بات کی متقاضی نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ زمین میں ہمارے ساتھ ہو، بلکہ وہ ہمارے ساتھ بھی ہے اور عرش عظیم پر مستوی بھی۔ اگر ہم اس معیت پر ایمان رکھیں تو اس سے ہم پر یہ لازم آئے گا کہ ہم اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہیں اور تقویٰ اختیار کریں ایک حدیث میں آتا ہے: ’’بہترین ایمان یہ ہے کہ آپ کو اس بات کا علم ہو کہ آپ جہاں بھی ہوں گے اللہ آپ کے ساتھ ہوگا۔‘‘[2]
[1] صحیح مسلم: ۳۹۵۔ عن ابی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ۔
[2] اسے طبرانی نے الکبیر اور الاوسط میں ذکر کیا، ملاحظہ ہو: مجمع الزوائد: ۱/ ۶۰۔ نیز بیہقی نے الاسماء والصفات: ۹۰۷۔ اور ابو نعیم نے الحلیۃ: ۶/ ۱۲۴ میں روایت کیا۔ شیخ البانی نے اس حدیث کو ضعیف الجامع: ۱۰۰۲۔ میں ضعیف کہا ہے۔ یہ حدیث ان الفاظ کے ساتھ بھی مروی ہے: تزکیۃ النفس ان یعلم ان اللہ معہ حیث کان۔ اسے بیہقی نے السنن: ۴/ ۹۵۔ ابن عاصم نے الاحاد والمثانی: ۱۰۶۲ میں اور فسوی نے المعرفۃ والتاریخ: ۱/۲۶۹ میں ۔ صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ ملاحظہ ہو: السلسلۃ الصحیحۃ: ۱۰۴۶۔