کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 268
مبحث چہارم: …معیت حقیقی ہے یا نہیں ؟ سطور بالا میں ہم نے بتایا ہے کہ بعض سلف مفسرین معیت کی تفسیر اس کے لازم سے کرتے ہیں ، جبکہ بعض دوسرے اسے اس کی حقیقت پر محمول کرتے ہیں ، مگر یہ ایسی معیت ہے جو اللہ تعالیٰ کے شایان شان اور اس کے ساتھ خاص ہے، مؤلف نے اس جگہ اور اپنی دیگر تالیفات میں یہی موقف اختیار کیا ہے، مگر اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ اللہ تعالیٰ زمین پر ہمارے ساتھ ہے، اس لیے کہ یہ باطل و مستحیل ہے۔ مبحث پنجم: …کیا معیت اور علو میں تناقض ہے؟ جواب : تین وجوہ کی بناء پر ان میں کوئی تناقض نہیں ہے: پہلی وجہ: اللہ تعالیٰ نے جب اپنی ذات کا وصف بیان کیا تو معیت اور علو کو ایک ساتھ بیان کیا اگر ان دونوں میں باہم تناقض ہوتا تو اس کا ان دونوں کے ساتھ اپنا وصف بیان کرنا صحیح نہ ہوتا۔ دوسری وجہ:علو اور معیت کے مابین سرے سے کوئی تناقض ہے ہی نہیں ، ممکن ہے کہ ایک چیز عالی بھی ہو اور وہ آپ کے ساتھ بھی ہو، مثلاً عرب کہا کرتے ہیں : ہم چل رہے تھے اور چاند ہمارے ساتھ تھا، سورج ہمارے ساتھ تھا اور ہم چلے جا رہے تھے، قطب ستارا ہمارے ساتھ تھا اور ہم رواں دواں تھے، حالانکہ سورج، چاند اور قطب ستارا یہ سب کے سب آسمان میں ہیں ، اگر مخلوق کے حوالے سے علو اور معیت کا اجتماع ممکن ہے تو خالق کے حوالے سے ان کا اجتماع بطریق اولیٰ ممکن ہے۔ اگر کوئی فوجی آفیسر کسی اونچے پہاڑ پر کھڑا ہو کر اپنے زیر کمان جوانوں سے کہے کہ تم دور دراز کے فلاں مقام پر معرکہ میں کود پڑو اور میں تمہارے ساتھ ہوں ، اور وہ دور بین سے ان کی طرف دیکھ رہا ہو، تو اس کا یہ کہنا درست ہوگا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں ، اس لیے کہ اگرچہ وہ ان سے بہت دور ہے مگر وہ انہیں اس طرح دیکھ رہا ہے گویا کہ وہ جو ان اس کے سامنے موجود ہوں ، اگر یہ کچھ مخلوق کے حق میں ممکن ہے تو خالق کے حق میں غیر ممکن کیوں ہے؟ تیسری وجہ:اگر ان دونوں کا اجتماع مخلوق کے حق میں مشکل ہو تو بھی خالق کے حق میں ان کا اجتماع مشکل نہیں ہوگا، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کی ہستی بہت بڑی ہے، خالق کی صفات کو مخلوق کی صفات پر قیاس نہیں کیا جا سکتا، اس لیے کہ دونوں میں فرق بالکل واضح ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سفر کی حالت میں یہ دعا پڑھا کرتے: اللہم انت الصاحب فی السفر والخلیفۃ فی الاہل۔[1] ’’میرے اللہ! تو سفر میں ساتھی اور اہل وعیال میں خلیفہ ہے۔‘‘ اس طرح علیہ الصلاۃ والسلام نے دوران سفر اللہ تعالیٰ کو اپنا ساتھی اور اپنے اہل خانہ میں اپنا خلیفہ قرار دے کر دونوں چیزوں کو ایک ساتھ جمع فرما دیا، حالانکہ یہ مخلوق کی نسبت سے غیر ممکن ہے۔ ایک صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ جب نمازی ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ﴾ پڑھتا ہے تو اللہ فرماتا ہے: میرے بندے نے میری تعریف کی۔ غور کیجئے کہ بے شمار نمازی ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ﴾ پڑھ رہے ہوتے ہیں ، جبکہ کتنے ہی:
[1] صحیح مسلم: ۱۳۴۲۔ عن ابن عمر رضی اللّٰہ عنہ۔