کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 267
انسان کے ساتھ معیت جیسی نہیں ہے، بایں طور کہ وہ اس کی جگہ میں اس کے ساتھ ہو سکتا ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کی معیت اس کے علو کے باوجود اس کے لیے ثابت ہے۔ پس اللہ ہمارے ساتھ ہے حالانکہ وہ ہر چیز سے اوپر اپنے عرش پر عالی و برتر ہے۔ یہ کسی بھی صورت ممکن نہیں ہے کہ وہ ہر اس جگہ میں ہمارے ساتھ موجود ہو جس جگہ ہم موجود ہوتے ہیں ۔ اس بناء پر معیت اور علو ذات کے درمیان تطبیق دینے کی ضرورت لاحق رہے گی۔ مؤلف رحمہ اللہ نے اس کے لیے ایک مستقل فصل قائم کی ہے، جس کی تفصیل ان شاء اللہ تعالیٰ آگے چل کر آئے گی اور جس میں وہ بتائیں گے کہ علو ذات اور معیت میں کوئی منافات نہیں ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات میں اس جیسی کوئی چیز نہیں ہے، وہ قرب کے باوجود عالی ہے اور علو کے باوصف قریب ہے۔ مؤلف رحمہ اللہ اس کے لیے چاند کی مثال بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں ، عرب کہتے ہیں : ہم چلتے رہے جبکہ چاند ہمارے ساتھ تھا۔ حالانکہ چاند آسمان پر ہوتا ہے۔ جب اس کا یہ عالم ہے تو پھر آسمانوں سے اوپر ہونے کے باوجود خالق اپنی مخلوق کے ساتھ کیوں نہیں ہو سکتا، جبکہ اس کی نسبت سے مخلوق کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے۔[1] شیخ الاسلام رحمہ اللہ کے اس قول سے اہل سنت پر بعض اہل تعطیل کے اس اعتراض کی تردید ہوتی ہے کہ تم دوسروں کو تاویل کرنے سے منع کرتے ہو جبکہ معیت کی تاویل کرتے ہوئے خود یہ کہتے ہو کہ یہ علم وقدرت، سمع و بصر اور ان جیسے دوسرے امور ربوبیت کے معنی میں ہے۔ مگر ہم کہتے ہیں کہ معیت اپنے حقیقی معنی پر محمول ہے، مگر اس کا وہ مفہوم نہیں ہے جو جہمیہ وغیرہم نے سمجھا ہے کہ وہ ہر جگہ لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے، بعض علماء سلف کی طرف سے معیت کی علم وقدرت اور ان جیسی دوسری چیزوں کے ساتھ تفسیر کرنا تفسیر باللازم ہے۔ مبحث سوم: …کیا معیت کا شمار صفات ذاتیہ میں ہوتا ہے یا صفات فعلیہ میں ؟ یہ بحث قدرے تفصیل طلب ہے۔ معیت عامہ کا شمار توصفات ذاتیہ میں ہوتا ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ سے اپنی مخلوق کا اپنے علم وقدرت، سمع و بصر اور ان جیسے دیگر امور سے احاطہ کر رکھا ہے۔ جہاں تک معیت خاصہ کا تعلق ہے تو یہ فعلی صفت ہے، اس لیے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تابع ہے۔ ہر وہ صفت جو کسی سبب سے مربوط ہو اس کا شمار صفات فعلیہ میں ہوتا ہے، ہم قبل ازیں بتا چکے ہیں کہ رضا کا شمار صفات فعلیہ میں ہوتا ہے اس لیے کہ وہ کسی سبب سے مربوط ہو تی ہے، جب اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ سبب معرض وجود میں آئے گا، اللہ تعالیٰ کی رضیٰ بھی وجود میں آجائے گی۔ اسی طرح معیت خاصہ ہے جب تقویٰ یا اس جیسے اس کے دیگر اسباب کسی شخص میں پائے جائیں گے، اسے اللہ تعالیٰ کی معیت حاصل ہو جائے گی۔
[1] ملاحظہ ہو: مجموع الفتاویٰ: ۵/ ۱۰۳۔