کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 263
﴿وَجَحَدُوْا بِہَا وَاسْتَیْقَنَتْہَا اَنْفُسُہُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا﴾ (النمل: ۱۴)
’’اور انہوں نے محض ظلم اور تکبر کی وجہ سے ان آیات کا انکار کیا، جبکہ ان کے دلوں نے ان کا یقین کر لیا تھا۔‘‘
اس میں شاہد یہ ہے کہ فرعون کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کے الٰہ کو دیکھنے کے لیے بلند وبالا محل تعمیر کرنے کا حکم دینا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ انہوں نے فرعون اور آل فرعون سے یہ کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ آسمان پر ہے، اور اس سے علو ذات کا اثبات ہوتا ہے۔
پانچویں اور چھٹی آیت: ﴿ئَ اَمِنْتُمْ مَنْ فِی السَّمَآئِ اَنْ یَّخْسِفَ بِکُمْ الَارْضَ فَاِِذَا ہِیَ تَمُوْرُo اَمْ اَمِنْتُمْ مَنْ فِی السَّمَآئِ اَنْ یُّرْسِلَ عَلَیْکُمْ حَاصِبًا فَسَتَعْلَمُوْنَ کَیْفَ نَذِ یْرِo﴾ (الملک:۱۷۔۱۶) ’’کیا تم بے خوف ہوگئے ہو اس (اللہ) سے جو آسمان میں ہے یہ کہ دھنسا دے وہ تم کو زمین میں پھر اچانک وہ لرزنے لگے، کیا تم بے خوف ہوگئے ہو اس سے جو آسمان میں ہے یہ کہ وہ تم پر پتھروں کی بارش برسا دے پھر تم جلد ہی جان جاؤ کہ میرا ڈرانا کیسا ہوا؟‘‘
شرح:…اللہ تعالیٰ آسمان میں ہے، مگر اس نے اپنی ذات سے اس بات کا کنایہ کیا، اس لیے کہ مقام اس کی عظمت کے اظہار کا ہے۔ نیز اس سے یہ بتانا بھی مقصود ہے کہ وہ لوگوں کے اوپر ہے ان پر قادر وغالب ہے اور یہ کہ ان کا نگہبان ہے، اس لیے کہ عالی و برتر کا اپنے ماتحتوں پر غلبہ ہوا کرتا ہے۔
[فَاِِذَا ہِیَ تَمُوْرُ]… یعنی زمین مضطرب ہونے لگے۔
اللہ تعالیٰ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ واللہ ہم بے خوف نہیں ہیں ، بلکہ کثرت معاصی کی صورت میں ہم لوگوں کو یہ خوف دامن گیر رہتا ہے کہ ہمیں کہیں زمین میں دھنسا نہ دیا جائے۔
[اَمْ اَمِنْتُمْ]… اس جگہ (ام) (بل) اور ہمزہ کے معنی میں ہے۔ یعنی بل أامنتم۔
[اَنْ یُّرْسِلَ عَلَیْکُمْ حَاصِبًا]… الحاصب: اوپر سے پتھرون کی بارش کی صورت میں آنے والا عذاب، جیسا کہ قوم لوط اور اصحاب الفیل پر اس قسم کا عذاب مسلط کیا گیا تھا، اس کے برعکس خسف وہ عذاب ہوتا ہے، جو نیچے کی طرف سے آنے اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہر دو قسم کے عذاب سے خبردار کیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے:
﴿فَکُلًّا اَخَذْنَا بِذَنْبِہٖ فَمِنْہُمْ مَّنْ اَرْسَلْنَا عَلَیْہِ حَاصِبًا وَ مِنْہُمْ مَّنْ اَخَذَتْہُ الصَّیْحَۃُ وَ مِنْہُمْ مَّنْ خَسَفْنَا بِہِ الْاَرْضَ وَ مِنْہُمْ مَّنْ اَغْرَقْنَا﴾ (العنکبوت: ۴۰)
’’پھر ہم نے ہر ایک کو اس کے گناہ کی وجہ سے پکڑا، ان میں سے کچھ پر تو ہم نے پتھروں کی بارش برسائی، جبکہ ان میں سے کچھ کو چنگھاڑنے پکڑا، کچھ کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور کچھ ایسے تھے جن کو ہم نے غرقاب کر دیا۔‘‘
یہ عذاب کی چار قسمیں ہیں ، جن میں سے اللہ تعالیٰ نے اس جگہ دو قسم کے عذاب کا ذکر کیا ہے: سنگ باری کرنا اور زمین میں دھنسا دینا۔
شاہد ارشاد باری تعالیٰ ﴿مَنْ فِی السَّمَآئِ﴾ میں ہے۔
اور جو آسمان میں ہے، وہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہے، جو کہ کے علو بالذات کی دلیل ہے۔