کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 262
شاہد، ﴿بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ﴾ میں ہے، جو اس امر میں صریح ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے ساتھ عالی ہے، اس لیے کہ کسی چیز کو کسی چیز کی طرف اٹھانا اس کے علو کو مستلزم ہوتا ہے۔ تیسری آیت: ﴿اِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہٗ﴾ (فاطر: ۱۰) ’’اس کی طرف چڑھتے ہیں پاکیزہ کلمات اور صالح عمل ان کلمات کو بلند کرتے ہیں ۔‘‘ شرح:…[اِلَیْہِ]… یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف۔ [یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ]… ﴿الْکَلِمُ﴾ اس جگہ اسم جمع ہے، اس کا مفرد ’’کلمۃ‘‘ ہے اور ’’کلمۃ‘‘ کی جمع کلمات آتی ہے، ﴿الْکَلِمُ الطَّیِّبُ﴾ ہر اس کلمہ کو شامل ہے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کیا جا سکتا ہو۔ مثلاً تلاوت قرآن، ذکر، علم، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر، پس اللہ تعالیٰ کا قرب دلانے والا ہر کلمہ، کلمہ طیبہ ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کی طرف چڑھتا اور اس تک پہنچتا ہے، اللہ رب العزت عمل صالح کو بھی اپنی طرف اٹھاتا ہے۔ کلمات طیبہ اللہ کی طرف صعود کرتے ہیں ، اور عمل صالح کو اللہ اوپر اٹھاتا ہے، اور یہ علو ذات کی دلیل ہے۔ چوتھی آیت: ﴿یَاہَامَانُ ابْنِ لِی صَرْحًا لَعَلِّی اَبْلُغُ الْاَسْبَابَo اَسْبَابَ السَّمٰوٰتِ فَاَطَّلِعَ اِِلٰی اِِلٰہِ مُوْسٰی وَاِِنِّی لَاَظُنُّہُ کَاذِبًاo﴾ (الغافر: ۳۶۔ ۳۷) ’’اے ہامان! میرے لیے ایک اونچا سا محل بنا، تاکہ میں اس پر چڑھ کر آسمانوں کے راستوں پر پہنچ جاؤں ، پھر میں موسیٰ کے معبود کو جھانک کر دیکھ لوں اور یقینا میں تو اسے جھوٹا خیال کرتا ہوں ۔‘‘ شرح:…ہامان فرعون کا وزیر تھا، جس نے اسے محل تعمیر کرنے کا حکم دیا تھا۔ [صَرْحًا]… بلند محل۔ [لَعَلِّی اَبْلُغُ الْاَسْبَابَo اَسْبَابَ السَّمٰوٰتِ ]… یعنی تاکہ میں ان راستوں تک پہنچ سکوں جو مجھے آسمان تک پہنچا دیں ۔ [فَاَطَّلِعَ اِِلٰی اِِلٰہِ مُوْسٰی]… یعنی میں موسیٰ کے معبود کو دیکھ لوں ، اور اس تک براہ راست رسائی حاصل کر لوں ۔ اور یہ اس لیے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس سے کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ آسمان پر ہے، اس پر فرعون نے اپنی قوم کو ایک بلند وبالا محل تعمیر کرنے کا حکم دیا تھا تاکہ وہ اس کے اوپر چڑھے اور پھر یہ کہنا شروع کر دے کہ مجھے تو ادھر کچھ نظر نہیں آیا، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس نے ایسا ازراہ مذاق کہا ہو۔ صورت حال جو بھی ہو، فرعون نے اپنی رعایا کو مطمئن کرنے کے لیے یہ ضرور کہا: ﴿اِِنِّیْ لَاَظُنُّہُ کَاذِبًا﴾ کہ یقینا میں اسے جھوٹا خیال کرتا ہوں ۔ جب کہ اسے یقین تھا کہ موسیٰ علیہ السلام سچے ہیں ، اس کا اظہار حضرت موسیٰ علیہ السلام کے اس ارشاد سے ہوتا ہے: ﴿لَقَدْ عَلِمْتَ مَآ اَنْزَلَ ہٰٓؤُلَآئِ اِلَّا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ بَصَآئِرَ﴾ (الاسراء: ۱۰۲) ’’تو اچھی طرح جانتا ہے کہ ان کو نہیں اتارا مگر آسمانوں اور زمین کے رب نے سمجھانے کے لیے۔‘‘ فرعون نے اس سے انکار نہیں بلکہ اس تاکیدی خبر کا اقرار کیا تھا۔ اس کے اس علم کی تائید اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے بھی ہوتی ہے: