کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 261
جب خود اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے لیے علو کا اثبات کیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سلف صالحین نے اس کے لیے علو ذات کا اثبات کیا ہے، تو پھر کسی بھی شخص کے اس قول کو قبول نہیں کیا جا سکتا کہ اللہ تعالیٰ کا ذاتی طور پر عالی ہونا ممکن نہیں ہے، اس لیے کہ یہ تسلیم کرنے سے یہ یہ کچھ ہو سکتا ہے۔
ثانیاً: پھر ہم تم سے یہ بھی دریافت کریں گے کہ اس حد اور جسم سے کیا مراد ہے جس کے لیے تم نے ہمارے خلاف اتنی زور دار چڑھائی کر رکھی ہے؟کیا حد سے تمہارے نزدیک مخلوقات میں سے کوئی ایسی چیز مراد ہے جس نے اللہ تعالیٰ کا احاطہ کر رکھا ہو؟ اگر ایسا ہے تو یہ باطل اور اللہ تعالیٰ سے منفی ہے اور یہ اثبات علو سے ہرگز لازم نہیں آتا۔
ثالثاً:یا تم حد سے یہ مراد لیتے ہو کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق سے جدا ہے اور اس میں حلول کیے ہوئے نہیں ہے؟
اگر تمہاری مراد یہ ہے تو یہ من حیث المعنی صحیح ہے، مگر ہم اپنی زبان سے یہ لفظ نہیں بولیں گے، نہ نفیاً اور نہ ہی اثباتاً، اس لیے کہ یہ لفظ وارد نہیں ہوئے۔
رہا جسم، تو اس کے بارے میں بھی ہم دریافت کر سکتے ہیں کہ اس سے تمہاری کیا مراد ہے؟ کیا تمہارے نزدیک اس سے مقصود ایسا جسم ہے جو گوشت پوست اور ہڈیوں کا مرکب ہوتا ہے؟ اگر جسم سے مراد اس قسم کا جسم ہے تو یہ باطل اور اللہ تعالیٰ سے منفی ہے۔ اس لیے کہ اس کی مثل کوئی چیز نہیں ہے۔ اور وہ سننے والا دیکھنے والا ہے۔
یا پھر جسم سے مراد ایسا جسم ہے جو قائم بنفسہ ہو اور اپنے شایان شان اوصاف سے متصف ہو؟ تو یہ من حیث المعنٰی حق ہے مگر ہم یہ الفاظ اپنی زبان سے ادا نہیں کریں گے، نہ نفیاً اور نہ ہی اثباتاً اس لیے کہ ان کا ورود بھی معدوم ہے۔
ایسی جہت کے بارے میں بھی یہ سوال کیا جا سکتا ہے کہ کیا اس سے تمہاری مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کوئی جہت ہے جو اس کو محیط ہے؟ تو یہ باطل ہے، اثبات علو سے یہ لازم نہیں آتا، یا پھر اس سے مراد ایسی جہت علو ہے جس نے اللہ تعالیٰ کا احاطہ نہیں کر رکھا۔ تو یہ حق ہے اور جس کی اللہ سے نفی کرنا صحیح نہیں ہے۔
دوسری آیت: ﴿بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ﴾ (النساء: ۱۵۸) ’’بلکہ اللہ نے اسے اپنی طرف اٹھا لیا۔‘‘
شرح:…[بَلْ]… اضراب ابطالی کے لیے ہے، جس سے یہودیوں کے اس قول کا ابطال کرنا مقصود ہے:
﴿اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ رَسُوْلَ اللّٰہِ وَ مَا قَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ وَ لٰکِنْ شُبِّہَ لَہُمْ وَ اِنَّ الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْہِ لَفِیْ شَکٍّ مِّنْہُ مَا لَہُمْ بِہٖ مِنْ عِلْمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ وَ مَا قَتَلُوْہُ یَقِیْنًاo بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیْہِ وَ کَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًاo﴾ (النساء: ۱۵۷۔ ۱۵۸)
’’یقینا ہم نے اللہ کے رسول مسیح عیسیٰ ابن مریم ( علیہ السلام ) کو قتل کیا ہے، جب کہ نہ وہ انہیں قتل کر سکے اور نہ انہیں سولی دے سکے، لیکن ان کے لیے مسیح کی تشبیہ بنا دی گئی تھی اور یقینا جن لوگوں نے اس میں اختلاف کیا وہ اس کے متعلق شک میں ہیں ، انہیں اس کا کچھ بھی علم نہیں ہے مگر صرف ظن کی پیروی کرنا، وہ یقینا انہیں قتل نہیں کر سکے، بلکہ اللہ نے انہیں اپنی طرف اٹھا لیا، اور اللہ بڑا غالب، بڑی حکمت والا ہے۔‘‘