کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 260
حاصل ہو سکتا ہے اور نہ ہی پورا غلبہ۔ جب اس کا نیچے ہونا محال ہے تو پھر علو واجب ہوگا۔ اس حوالے سے ایک دوسری عقلی دلیل بھی پیش کی جا سکتی ہے اور وہ یہ کہ تمام عقلاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ علو صفت کمال ہے اور جب وہ صفت کمال ہے تو اس کا اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت ہونا ضروری ہے اس لیے کہ کمال کی ہر صفت مطلقاً اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت ہے۔ ہم ’’مطلقاً‘‘ کہہ کر کمال نسبی سے احتراز کرنا چاہتے ہیں جو ایک حالت میں کمال ہوتا ہے اور دوسری میں نقص، مثلاً نیند نقص ہے مگر جو اس کا محتاج ہو اور اس کی وجہ سے اپنی عملی قوت بحال کرنا چاہتا ہو تو اس کے لیے کمال ہے۔ خامساً: الفطرۃ:جہاں تک دلالت فطرت کا تعلق ہے تو وہ غیر متنازع اور مسلمہ امر ہے، ہر شخص فطری طور پر اس بات سے آگاہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان میں ہے، یہی وجہ ہے کہ جب آپ کے لیے اچانک کوئی ایسی غیر پسندیدہ صورت حال پیدا ہو جائے جس کا ازالہ آپ کے بس میں نہ ہو تو آپ اس کے دفعیہ کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور آپ کے دل میں آسمان والے کا خیال آتا ہے، یہاں تک کہ علو ذات کے منکرین کے ہاتھ بھی آسمان کی طرف اٹھتے ہیں نہ کہ زمین کی طرف۔ یہ ایک فطری تقاضا ہے جس سے انکار کرنا کسی کے لیے بھی ممکن نہیں ہے۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ بعض جانور بھی اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ آسمان میں ہے۔ مروی ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام بارش کی دعا کرنے کے لیے باہر نکلے تو ایک چیونٹی کو پیٹھ کے بل لیٹے ہوئے دیکھا، اس نے اپنی ٹانگیں آسمان کی طرف اٹھا رکھی تھیں ، اور وہ کہہ رہی تھی: ’’یااللہ! ہم بھی تیری مخلوق ہیں ، ہم تیری باران رحمت سے بے نیاز نہیں ۔‘‘ اس پر حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا: ’’لوگو! واپس لوٹ چلو، تم پر دوسروں کی دعا سے باران رحمت کا نزول ہوگا۔‘‘[1] یہ ایک فطری الہام ہے۔ حاصل کلام یہ کہ اللہ رب تعالیٰ کا آسمان پر ہونا فطری طور پر معلوم ہے۔ واللہ! اگر علو ذات باری تعالیٰ کے منکرین کی فطرت میں بگاڑ پیدا نہ ہو چکا ہوتا تو وہ کسی بھی کتاب کا مطالعہ کیے بغیر اس امر سے آگاہ ہوتے کہ اللہ آسمان پر ہے، اس لیے کہ جس چیز پر فطرت دلالت کرتی ہو اس کے لیے کتابوں کا مطالعہ کرنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ منکرین علو ذات کہتے ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ عقیدہ اختیار کر لیا جائے تو اس سے اس کا ایک جہت میں جسمانی طور پر محدود ہونا لازم آئے گا۔ اور یہ ممتنع ہے۔ مگر ہم اس کا جواب یہ دیں گے: اولاً: ان جیسی تعلیلات کے ساتھ دلالت نصوص کو باطل قرار دینا جائز نہیں ہے اگر اس چیز کو جائز قرار دے دیا جائے تو پھر نصوص شرعیہ کے تقاضوں کو پامال کرنے کے شوقین ہر شخص کے لیے اس قسم کی کمزور تعلیلات کا سہارا لینا ممکن ہو جائے گا۔
[1] یہ حدیث پہلے گزر چکی ہے۔