کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 26
ہے، البتہ یہ کہنا درست ہے کہ وہ جاہل نہیں ہے۔ اسی طرح ان لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر آپ اللہ تعالیٰ کے لیے کسی چیز کا اثبات کریں گے تو اسے موجودات سے تشبیہ دیں گے، اس لیے کہ ان کے خیال میں تمام موجود اشیاء ایک دوسری سے متشابہ ہیں ، آپ اس کے لیے کسی بھی چیز کا اثبات نہیں کر سکتے، جہاں تک نفی کا تعلق ہے تو وہ عدم سے عبارت ہے۔ حالانکہ کتاب وسنت میں اللہ تعالیٰ کے لیے جن صفات کا اثبات کیا گیا ہے وہ نفی سے کہیں زیادہ ہیں ۔ اگر ان سے یہ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کے بارے میں خود یہ فرمایا ہے کہ وہ سمیع بصیر ہے۔ یعنی وہ سنتا بھی ہے اور دیکھتا بھی۔ تو اس کے جواب میں وہ یہ کہیں گے کہ یہ اضا فت کے باب سے ہے، یعنی سماعت (سننا) کو اس کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ وہ سماعت کے ساتھ متصف ہے اس بناء پر سمیع کا معنی یہ ہے کہ اس کے لیے سمع نہیں لیکن مسموع ہے۔ ان میں سے ہی کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ اوصاف اس کی مخلوقات کے ہیں ، اس کے اپنے نہیں ، اس کے لیے کسی بھی صفت کا اثبات نہیں کیا جاسکتا ۔ ۳۔ تیسری قسم کا بدعتی گروہ اللہ تعالیٰ کے لیے اسماء کا اثبات کرتا ہے، یہ گروہ معتزلہ کا ہے۔ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے لیے اسماء کا اثبات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سمیع و بصیر بھی ہے، قدیر و علیم بھی ہے اور حکیم بھی۔ لیکن وہ قدیر بلا قدرت ہے سمیع بلا سمع، بصیر بلا بصر ہے، علیم بلاعلم ہے اور حکیم بلا حکمت ہے۔ ۴۔ چوتھی قسم کے لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہم حقیقتاً اس کے لیے اسماء کا بھی اثبات کرتے ہیں ، اور ان صفات معینہ کا بھی جن پر عقل دلالت کرتی ہو جبکہ ہم باقی صفات کے منکر ہیں ۔ ہم اللہ تعالیٰ کے لیے صرف سات صفات کا اثبات کرتے جبکہ باقی صفات کا تحریفاً انکار کرتے ہیں ناکہ تکذیباً۔ اس لیے کہ ان کا تکذیباً انکار کرنے سے کفر لازم آتا ہے، جبکہ تحریف ان کے نزدیک ’’تاویل‘‘ کا دوسرا نام ہے۔ ان سات صفات باری تعالیٰ کو اس شعر میں جمع کر دیا گیا ہے: لَہُ الحیاۃُ والکلامُ والبَصَرْ سمعٌ ارادۃٌ وعِـلمٌ واقتَدَرْ یعنی حیات، کلام، بصر، سمع، علم اور قدرت۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے لیے ان صفات کا اثبات اس لیے کرتے ہیں کہ ان پر عقل دلالت کرتی ہے، جبکہ دوسری صفات پر دلالت کرنے سے عقل قاصر ہے۔ اللہ تعالیٰ کے لیے ہم صرف انہی صفات کا اثبات کرتے ہیں جن پر انسانی عقل دلالت کرتی ہے اور جنہیں عقل تسلیم نہیں کرتی ہم ان کے اثبات سے انکار کرتے ہیں ۔ یہ اشاعرہ کا گروہ ہے جو کہ بعض صفات کو تسلیم کرتا اور بعض سے انکار کرتا ہے، اسماء و صفات میں تعطیل کے قائلین کی یہ تمام قسمیں جہم بن صفوان کی بدعت سے متفرع ہیں ۔ ’’جو شخص بھی اسلام میں برا طریقہ رائج کرے گا اس پر اس کابھی بوجھ ہوگا اور ان تمام لوگوں کا بھی جو قیامت تک اس پر عمل کرتے رہیں گے۔‘‘[1] برادران اسلام! اگر آپ ان کتب کا مطالعہ کریں جو اسماء و صفات باری تعالیٰ کے بارے میں لوگوں کے مختلف اقوال کو جمع کرنے کااہتمام کرتی ہیں تو آپ کی حیرانی کی کوئی انتہا نہیں رہے گی اور آپ یہ کہنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ قطع نظر ایک
[1] جابر بن عبداللہ بجلی سے مروی ایک حدیث کا حصہ صحیح مسلم ۔۱۰۱۷۔