کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 259
۲۔ جہاں تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل کا تعلق ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر عرفہ کے دن تقریباً ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابہ کرام کے بہت بڑے اجتماع کے سامنے خطبہ حج دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’الا ہل بلغت؟‘‘ کیا میں نے تم لوگوں تک اللہ کا پیغام پہنچا دیا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر دریافت فرمایا: ’’الا ہل بلغتُ؟‘‘انہوں نے پھر کہا: ہاں ، اس پر آپ نے فرمایا: اللّٰہم اشہد۔ ’’میرے اللہ گواہ رہنا۔‘‘ اس دوران آپ اپنی انگلی کے ساتھ آسمان کی طرف اشارہ فرماتے اور اسے لوگوں کی طرف جھکاتے۔‘‘[1] آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دعا کرتے وقت دونوں ہاتھوں کو آسمان کی طرف اٹھانا بھی اسی قبیل سے ہے۔ جس سے بالفعل علو ذات کا اثبات ہوتا ہے۔ ۳۔ رہی تقریر، تو معاویہ بن حکم رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ ان کے پاس ایک لونڈی کو لایا گیا، وہ اسے آزاد کرتا چاہتے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: ’’اللہ کہاں ہے؟‘‘ وہ کہنے لگی: آسمان میں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: ’’میں کون ہوں ؟‘‘ اس نے جواب دیا: آپ اللہ کے رسول ہیں ۔ یہ سن کر آپ نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’اسے آزاد کر دو، یقینا یہ مومنہ ہے۔‘‘[2] یہ لونڈی پڑھی لکھی نہیں تھی، اور لونڈیاں عام طور پر جاہل ہی ہوتی ہیں ، مگر وہ بھی جانتی تھی کہ اس کا رب آسمان میں ہے۔ جبکہ اولاد آدم سے گمراہ لوگ اس کے آسمان میں ہونے کا انکار کرتے ہوئے کہتے ہیں : وہ عالم کے اوپر ہے نہ نیچے نہ دائیں اور نہ بائیں ۔ یا وہ ہر جگہ موجود ہے۔ علو ذات پر یہ تھے کتاب وسنت سے دلائل۔ ثالثاً: دلالت اجماع عہد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر آج تک علماء سلف کا اس بات پر اجماع رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات کے ساتھ آسمان میں ہے۔ اگر آپ یہ سوال کریں کہ ان کا اس پر اجماع کیسے ہے؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ قرآنی آیات اور احادیث نبویہ میں علو، فوقیت، اس کی طرف سے اشیاء کے اترنے اور اس کی طرف ان کے چڑھنے کا ذکر تکرار کے ساتھ وارد ہوا ہے۔ علماء سلف کا انہیں ان کے ظاہر پر محمول کرنا اور ان کی مخالفت نہ کرنا ان کی طرف سے ان کے مدلول پر اجماع کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی لیے شیخ الاسلام رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’اس پر سلف کا اجماع ہے۔‘‘ مزید فرماتے ہیں : ’’ان میں سے کسی ایک نے بھی یہ نہیں کہا کہ: اللہ آسمان میں نہیں ہے، یا اللہ زمین میں ہے، یا اللہ نہ تو عالم میں داخل ہے اور نہ اس سے خارج، نہ متصل ہے اور نہ منفصل، یا اس کی طرف حسی اشارہ کرنا جائز نہیں ہے۔‘‘ رابعاً: دلالت عقل، اس بات میں تو کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ یا اوپر ہوگا یا نیچے، مگر اس کا نیچے ہونا محال ہے، اس لیے کہ یہ نقص ہے جو اس امر کو مستلزم ہے کہ اس کی مخلوق میں سے کوئی چیز اس کے اوپر ہو، اس صورت میں اسے نہ تو علو تام
[1] صحیح مسلم: ۱۲۱۸۔ من حدیث جابر بن عبداللّٰہ رضی اللّٰہ عنہ ۔ [2] اس کی تخریج پہلے گزر چکی ہے۔