کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 258
اولاً: کتاب علو ذاتی پر کتاب اللہ کی دلالت میں بڑا تنوع پایا جاتا ہے، اس کی یہ دلالت کبھی علو کے ذکر کے ساتھ ہے اور کبھی فوقیت کے ذکر کے ساتھ۔ کبھی اس بات کا ذکر ہوتا ہے کہ چیزوں کا نزول اس کی طرف سے ہوتا ہے اور کبھی یہ ذکر کہ بعض اشیاء کا اس کی طرف صعود ہوتا ہے اور کبھی یہ بتایا جاتا ہے کہ وہ آسمان میں ہے۔
علو کی مثالیں مندرجہ ذیل ہیں : ﴿وَ ہُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ﴾ (البقرۃ: ۲۵۵) ’’وہ سب سے بلند سب سے بڑا ہے۔‘‘ ﴿سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی﴾ (الاعلیٰ: ۱) ’’اپنے سب سے بلند رب کی تسبیح بیان کریں ۔‘‘
فوقیت کی مثالیں مندرجہ ذیل ہیں : ﴿وَ ہُوَ الْقَاہِرُ فَوْقَ عِبَادِہٖ﴾ (الانعام: ۱۸) ’’اور وہ اپنے بندوں پر زبردست ہے۔‘‘ ﴿یَخَافُوْنَ رَبَّہُمْ مِّنْ فَوْقِہِمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَo﴾ (النحل: ۵۰) ’’وہ (فرشتے) اپنے اوپر سے اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور وہی کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے۔‘‘
اس کی طرف سے نزول اشیاء کی مثالیں : ﴿یُدَبِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَآئِ اِلَی الْاَرْضِ﴾ (السجدہ:۵) ’’وہی تدبیر کرتا ہے کام کی آسمان سے زمین تک۔‘‘ ﴿اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ﴾ (الحجر:۹) ’’بے شک ہم نے ہی ذکر اتارا۔‘‘
رب تعالیٰ کی طرف اشیاء کے صعود کی مثالیں : ﴿اِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہٗ﴾ (فاطر: ۱۰) ’’اسی کی طرف چڑھتے ہیں پاکیزہ کلمات، اور نیک عمل انہیں بلند کرتے ہیں ۔‘‘ اسی طرح: ﴿تَعْرُجُ الْمَلٰٓئِکَۃُ وَالرُّوْحُ اِِلَیْہِ﴾ (المعارج: ۴) ’’چڑھتے ہیں فرشتے اور روح الامین اس کی طرف۔‘‘
اس کے آسمان میں ہونے کی مثال ہے: ﴿ئَ اَمِنْتُمْ مَنْ فِی السَّمَآئِ اَنْ یَّخْسِفَ بِکُمُ الْاَرْضَ﴾ (الملک: ۱۶) ’’کیا تم اس سے بے خوف ہوگئے ہو جو آسمان میں ہے کہ وہ تمہیں زمین میں دھنسا دے۔‘‘
ثانیاً: دلالت سنت :یہاں تک سنت کا تعلق ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل اور تقریر سے تواتر کے ساتھ اس پر دلائل موجود ہیں :
۱۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعدد ارشادات ہیں علو اور فوقیت کا ذکر آیا ہے: مثلاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان: سبحان ربی الاعلی۔[1]’’پاک ہے میرا رب جو سب سے اعلیٰ ہے۔‘‘ اسی طرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمانوں کا ذکر کیا تو فرمایا: واللہ فوق العرش۔[2] ’’اور اللہ عرش کے اوپر ہے۔‘‘ آپ علیہ الصلاۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ کے آسمان میں ہونے کا اس طرح ذکر فرمایا: ’’کیا تم مجھے امین نہیں سمجھتے ہو، جب کہ میں اس کا امین ہوں جو آسمان میں ہے۔‘‘[3]
[1] صحیح مسلم: ۷۷۲ من حدیث حذیفۃ رضی اللّٰہ عنہ ۔
[2] اسے ابن خزیمہ نے کتاب التوحید:۱/ ۲۴۴۔ میں لالکائی نے شرح السنہ:۶۵۹ میں اور طبرانی نے الکبیر: ۹/ ۲۲۸۔ میں روایت کیا، ہیثمی مجمع: ۱/ ۸۶ میں فرماتے ہیں : اسے طبرانی نے روایت کیا اور اس کے راوی صحیح کے راوی ہیں ۔ نیز بیہقی نے الاسماء والصفات: ۸۵۱۔ ابو الشیخ نے کتاب العظمۃ: ۲۷۹ اور دارمی نے الرد علی الجہمیۃ: ۸۱ میں روایت کیا، ذہبی العلو میں فرماتے ہیں اس کی سند صحیح ہے۔ مختصر العلو: ۴۸ من حدیث ابن مسعود رضی اللّٰہ عنہ ۔
[3] صحیح بخاری: ۴۳۵۱۔ صحیح مسلم: ۱۰۶۴ عن ابی سعید الخدری رضی اللّٰہ عنہ ۔