کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 254
ثانیاً: اجماع صحابہ اور اجماع سلف کے خلاف ہے۔ ثالثاً: عربی زبان میں ’’استوی‘‘ ’’استولیٰ‘‘ کے معنی میں مستعمل نہیں ہے اور اس کے لیے جس عربی شعر سے انہوں نے استدلال کیا ہے، تو یہ استدلال ناقص ہے۔ رابعاً: اس پر لوازم باطلہ لازم آتے ہیں ، مثلاً یہی کہ آسمانوں اور زمین کو پیدا کرنے سے قبل عرش غیر اللہ کی ملکیت میں تھا۔ ایک دفعہ ابوالمعالی الجوینی اشاعرہ کے مذہب کی تائید کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے استواء علی العرش سے انکار کرتے بلکہ اس کے علو بالذات کا بھی انکار کرتے ہوئے کہنے لگے: ’’اللہ تعالیٰ موجود تھا اور اس کے علاوہ اور کچھ نہ تھا اور وہ اب بھی اسی طرح ہے، جس طرح پہلے تھا۔‘‘ اس سے اس کا مقصد اللہ تعالیٰ کے استواء علی العرش ہونے کا انکار کرتا تھا، یعنی وہ تھا مگر عرش نہیں تھا اور وہ اب بھی اسی حالت میں ہے، یعنی نہ عرش ہے اور نہ وہ اس پر مستوی۔ ان کی یہ باتیں سن کر ابوالعلاء الہمذانی کہنے لگے: ’’استاذ محترم! عرش اور استواء علی العرش کی بات ایک طرف رکھیں ۔ وہ کہنا یہ چاہتے تھے کہ یہ سمعی دلیل سے ثابت ہے اور اگر اس کے بارے میں ہمیں اللہ نہ بتاتا تو ہمیں اس کا علم نہ ہوتا۔ ہمیں اس ضرورت کے بارے میں بتائیں جسے ہم اپنی جانوں میں پاتے ہیں ، کہ کوئی عارف جب بھی یا اللہ کہتا ہے، اس کے دل میں علو کا خیال آتا ہے‘‘ یہ سن کر ابوالمعالی مبہوت رہ گئے اور سر پکڑ کر کہنے لگے: ہمذانی نے میری حیرت گم کر دی، ہمذانی نے مجھے حیران کر دیا، اور یہ اس لیے کہ یہ فطری دلیل ہے جس کا کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا۔ دوسرا مقام: ﴿اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ﴾ (یونس: ۳) ’’بیشک تمہارا رب وہ اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر وہ عرش پر مستو ہوا۔‘‘ شرح:…اس آیت کی تفسیر میں بھی وہی کچھ کہا جائے گا جو ہم پہلی آیت کے ضمن میں لکھ آئے ہیں ۔ تیسرا مقام: ﴿اَللّٰہُ الَّذِیْ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَیْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَہَا ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ﴾ (الرعد:۲) ’’اللہ تو وہ ہے جس نے بلند کیا آسمانوں کو بغیر کسی ستون کے (جیسے کہ) تم اسے دیکھ بھی رہے ہو۔‘‘ شرح:…[بِغَیْرِ عَمَدٍ]… کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ آسمان مطلقاً ستونوں کے بغیر ہی کھڑے ہیں ؟ یا ستون تو ہیں مگر ہمیں دکھائی نہیں دیتے؟ اس بارے مفسرین کا اختلاف ہے، بعض کے نزدیک ﴿تَرَوْنَہَا﴾ ﴿عَمَدٍ﴾ کی صفت ہے، یعنی ایسے ستونوں کے بغیر جو تمہیں دکھائی دیتے ہوں ، جبکہ کچھ مفسرین کہتے ہیں کہ ﴿تَرَوْنَہَا﴾ جملہ مستانفہ ہے، اور اس کا معنی یہ ہے کہ آسمان ستونوں کے بغیر ہیں ، جیسے کہ تم دیکھ بھی رہے ہو، یہ معنی زیادہ مناسب ہے، اس لیے کہ آسمانوں کے سرے سے ستون ہیں ہی نہیں ، نہ مرئی اور نہ غیر مرئی۔ [ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ]… شاہد اس جملہ میں ہے۔ اور اس کا مفہوم ومعنی اوپر گزر چکا ہے۔ چوتھا مقام: ﴿اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَوٰیo﴾ (طٰہٰ: ۵) ’’رحمن عرش پر مستوی ہے۔‘‘ شرح:…[عَلَی الْعَرْشِ]… کو مقدم لایا گیا حالانکہ وہ ﴿اسْتَوٰی﴾ کا معمول ہے، جس سے مقصود افادۂ حصر