کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 253
جسم کے معنی
اگر تو اس سے تمہاری مراد یہ ہے کہ اللہ کی کوئی ایسی ذات نہیں ہے جو اس کے لیے لازمی اور اس کے شایان شان صفات سے متصف ہو، تو تمہارا یہ قول باطل ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے حقیقی ذات ہے جو کہ صفات کے ساتھ متصف ہے اور یہ کہ اس کا چہرہ بھی ہے اور ہاتھ بھی، آنکھیں بھی ہیں اور قدم بھی۔
اگر جسم سے تمہاری مراد ایسا جسم ہے جو گوشت، خون اور ہڈیوں وغیرہا سے مرکب ہو، تو یہ اللہ کے لیے ممتنع ہے اور یہ اس قول کا لازمی نتیجہ نہیں ہے کہ اللہ کے استواء علی العرش سے مراد اس پر اس کا علو ہے۔
حد کے معنی
رہا ان کا یہ قول کہ اس سے اس کا محدود ہونا لازم آتا ہے۔
تو اس کا تفصیلی جواب یہ ہے کہ محدود ہونے سے تمہاری کیا مراد ہے؟
اگر تو اس کے محدود ہونے سے تمہاری مراد یہ ہے کہ عرش اس کے لیے محیط ہے، تو یہ باطل ہے، لازم نہیں ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر مستوی ہے اگرچہ وہ عرش اور عرش کے علاوہ بھی ہر شے سے بڑا ہے، اور اس سے عرش کا اس کے لیے محیط ہونا لازم نہیں آتا، بلکہ اس کا محیط ہونا ممکن ہی نہیں ہے۔ اس لیے کہ اللہ ہر شے سے عظیم اور بڑا ہے۔ قیامت کے دن ساری زمین اس کی مٹھی میں ہوگی اور آسمان اس کے دائیں ہاتھ میں لپٹے ہوئے ہوں گے۔
جہاں تک ان کے اس قول کا تعلق ہے کہ اس سے اس کا عرش کا محتاج ہونا لازم آتا ہے۔
تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس سے اس کا محتاج ہونا لازم نہیں آتا، اس لیے کہ اس کے عرش پر مستوی ہونے کا معنی یہ ہے کہ وہ عرش کے اوپر ہے، مگر یہ علو خاص ہے، اس کا یہ معنی ہرگز نہیں ہے کہ عرش اسے اٹھاتے ہوئے ہے، نہ تو اسے عرش اٹھا سکتا ہے اور نہ آسمان۔ اور جس لازم کا تم نے دعویٰ کیا ہے وہ ممتنع ہے، اس لیے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی نسبت سے نقص ہے، اور یہ استواء حقیقی سے لازم نہیں آتا۔ اس لیے کہ ہم استواء علی العرش کا یہ معنی نہیں کرتے کہ عرش اسے اٹھائے ہوئے، وہ تو خود محمول ہے:
﴿وَالْمَلَکُ عَلٰی اَرْجَائِہَا وَیَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّکَ فَوْقَہُمْ یَوْمَئِذٍ ثَمَانِیَۃٌo﴾ (الحاقۃ: ۱۷)
’’اس دن تیرے رب کے عرش کو آٹھ فرشتوں نے اپنے اوپر اٹھا رکھا ہوگا۔‘‘
فرشتے اسے اب بھی اٹھائے ہوئے ہیں ۔ اس نے اللہ کو نہیں اٹھا رکھا اور نہ ہی وہ اس کا محتاج ہے، بحمداللہ ہمارے اس مسکت جواب سے ان کے سلبی دلائل بھی باطل قرار پائے۔
اہل سنت والجماعت کے معطلہ پر کردہ ردّ کا خلاصہ
ہماری طرف سے ان کی گفتگو کی تردید کا خلاصہ مندرجہ ذیل ہے:
اولاً: ان کا یہ قول ظاہر نص کے خلاف ہے۔