کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 25
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : قدریہ اور مرجیہ کی بحث طاعت، معصیت، مومن اور فاسق کے بارے میں ہوتی تھی، انہوں نے رب تعالیٰ اور اس کی صفات کے بارے میں کبھی کوئی بات نہیں کی، پھر بزعم خویش اذکیاء کی ایک جماعت یہ دعوی لے کر اٹھی کہ عقل وحی پر مقدم ہے۔ چنانچہ انہوں نے خوارج اور مرجیہ کے اقوال کے درمیان ایک تیسرا قول اختیار کیا اور وہ یہ کہ کبیرہ گناہ کا مرتکب نہ تو مومن ہے جس طرح کہ مرجیہ کہتے ہیں اور نہ ہی کافر جیسا کہ خوارج کا کہنا ہے بلکہ وہ دو منزلوں کی درمیانی منزل میں ہے، اس آدمی کی طرح جس نے ایک شہر سے دوسرے شہر کا سفر اختیار کیا اور راستے کے درمیان ہی ٹھہر گیا۔ اس طرح وہ نہ تو اپنے شہر میں ہے اور نہ اس شہر میں جس کی طرف وہ جانا چاہتا تھا، بلکہ وہ ایک درمیانی منزل پر ٹکا ہوا ہے۔ یہ بات تو دنیوی احکام کے حوالے سے ہے، جہاں تک آخرت کا تعلق ہے تو وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم میں رہے گا، اس طرح یہ لوگ آخرت کے حوالے سے تو خوارج کے ساتھ موافقت رکھتے ہیں جبکہ دنیوی حوالے سے ان کی مخالفت کرتے ہیں ۔ اس بدعت کے ظہور اور انتشار کے بعد جہمیہ کی بدعت نے سر اٹھایا جو کہ جھم بن صفوان اور اس کے پیرو کاروں کی ایجاد کردہ ہے جنہیں جہمیہ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے، یہ بدعت مسئلہ اسماء و صفات اور احکام کے ساتھ نہیں بلکہ خالق کائنات کی ذات کے ساتھ تعلق رکھتی ہے۔ آپ نے ملاحظہ کیا کہ صدرِ اسلام میں بدعات نے کس طرح رواج پکڑا، اور وہ کس طرح آگے بڑھتے بڑھتے خالق کائنات عزوجل کی ذات تک جا پہنچیں ۔ ان بدعت پرستوں نے خالق کو مخلوق کی جگہ لا کھڑا کیا، اور اپنے من پسند انہ انداز میں جو چاہا کہتے چلے گئے، انہوں نے خود ہی یہ فیصلہ کر ڈالا کہ یہ چیز اللہ کے لیے ثابت ہے اور یہ غیر ثابت، اللہ تعالیٰ کے اس چیز کے ساتھ متصف ہونے کو عقل قبول کرتی ہے اور اسے قبول نہیں کرتی، جہمیہ اور معتزلہ کی بدعات نے سر اٹھایا اور پھر وہ اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات کے بارے میں متعدد اقسام میں تقسیم ہوگئے: ۱۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو وجود یا عدم وجود کے ساتھ متصف کرنا جائز نہیں ہے۔ اس لیے کہ اگر اسے وجود کے ساتھ متصف مانا جائے تو وہ موجود ات سے مشابہ ہو جائے گا جبکہ اسے عدم کے ساتھ متصف تسلیم کرنے کی صورت میں وہ معدومات کے مشابہہ ہو جائے گا۔ اس بناء پر اس سے معبود اور عدم دونوں کی نفی واجب ہے۔ مگر ان کا یہ قول خالق کائنات کو ممتنعات اور مستہیلات کے مشابہہ قرار دینے کے مترادف ہے: اس لیے کہ وجود اور عدم وجود کا تقابل کروانا نقیضین میں تقابل کروانا ہے اور نقیضین کا ایک ساتھ نہ اجتماع ممکن ہے اور نہ ارتفاع۔ اولاد آدم کی جمیع عقول اس چیز کا انکار کرتی ہیں ، اور وہ اسے قبول کرنے کے لیے ہرگز تیار نہیں ہیں ۔ اب آپ خود ہی ملاخطہ فرمائیں کہ ان لوگوں نے ایک چیز سے کس طرح راہ قرار اختیار کی اور پھر کس طرح اس سے بھی بری چیز میں مبتلا ہوگئے۔ ۲۔ دوسری قسم کے لوگوں کا قول ہے کہ ہم اسے نفی کے ساتھ موصوف کریں گے اثبات کے ساتھ نہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ لوگ ذات الٰہ سے سلب صفات کو تو جائز قرار دیتے ہیں مگر اثبات صفات کو جائز قرار نہیں دیتے۔ یعنی ہم یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ وہ زندہ ہے، ہاں یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ وہ میت نہیں ہے۔ اسی طرح یہ کہنا تو جائز نہیں ہے کہ وہ تسلیم