کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 244
موسوم کرتے ہوئے فرمایا ہے: ﴿نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہٖ﴾ (الفرقان: ۱) تربیتی حوالے سے ہم یہ استفادہ کر سکتے ہیں کہ چونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندۂ خاص ہیں ، لہٰذا ہم آپ کے ساتھ اپنی محبت کو یقینی بنائیں اور اس میں دن بہ دن اضافہ کرتے چلے جائیں ۔ نیز چونکہ نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام اللہ کے آخری رسول ہیں ، لہٰذا آپ کے بعد نبوت کے کسی بھی دعویٰ کی ہرگز ہرگز تصدیق نہ کریں ۔ اس لیے کہ آپ سب جہانوں کے رسول ہیں ۔ اگر آپ کے بعد کسی نے رسول ہونا ہوتا تو آپ کی رسالت اس کی آمد پر ختم ہو جاتی اور اس طرح آپ سب لوگوں کے رسول نہ رہتے۔ نویں اور دسویں آیت: ﴿مَا اتَّخَذَ اللّٰہُ مِنْ وَّلَدٍ وَّمَا کَانَ مَعَہٗ مِنْ اِِلٰہٍ اِِذًا لَّذَہَبَ کُلُّ اِِلٰہٍ بِمَا خَلَقَ وَلَعَلَا بَـعْـضُـہُـمْ عَـلٰی بَـعْـضٍ سُـبْـحٰـنَ اللّٰہِ عَـمَّــا یَـصِـفُوْنَ o عَـالِمِ الْغَیْبِ وَالشَّہَادَۃِ فَـتَـعَـالٰی عَـمَّـا یُـشْـرِکُوْنَo﴾ (المومنون: ۹۱۔۹۲) ’’اللہ نے کوئی اولاد نہیں بنائی اور نہ ہی اس کے ساتھ کوئی اور معبود ہے، تب لے جاتا ہر معبود اس کو جو اس نے پیدا کیا ہوتا اور ضرور ان کا ایک دوسرے پر غالب آجاتا، اللہ پاک ہے اس سے جو وہ بیان کرتے ہیں ، وہ جاننے والا ہے۔ غیب اور ظاہر کو، پس وہ بلند ہے اس سے جو وہ شرک کرتے ہیں ۔‘‘ شرح:…اس آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے لیے اولاد بنانے یا اپنے ساتھ کسی اور کے الٰہ ہونے کی نفی فرما رہا ہے، اس نفی کی تاکید (وَلَدٍ) اور (اِلٰہٍ) پر (من) کے داخل ہونے سے ہو رہی ہے، اس لیے کہ نفی کے سیاق میں حرفِ جر کی زیادتی تاکید کا فائدہ دیتی ہے۔ [مَا اتَّخَذَ اللّٰہُ مِنْ وَّلَدٍ]… یعنی اللہ تعالیٰ نے کسی کو بھی اپنی اولاد کے طور پر پسند نہیں کیا، نہ عزیر کو، نہ مسیح کو، نہ ملائکہ کو اور نہ ہی کسی اور کو، اس لیے کہ وہ سب سے بے نیاز ہے۔ جب اس نے کسی کو اولاد بنانے کی نفی کر دی تو اس سے اس کے باب ہونے کی نفی بطریق ہوگی۔ [مِنْ اِِلٰہٍ]… الٰہ بمعنی مالوہ ہے، جس طرح بناء بمعنی مبنی اور فراش بمعنی مفروش ہے، اسی طرح الفہ بمعنی مالوہ ہے، یعنی معبود جس کے سامنے عاجزی وانکساری کی جائے۔ یعنی اللہ کے ساتھ کوئی حقیقی الٰہ نہیں ہے، جہاں تک معبودان باطلہ کا تعلق ہے تو وہ موجود تو ہیں مگر چونکہ باطل ہیں لہٰذا کالعدم ہیں ، لہٰذا یہ کہنا درست ہے کہ اللہ کے ساتھ کوئی دوسرا معبود نہیں ہے۔ [اِذَا]… یعنی اگر اس کے ساتھ کوئی اور معبود ہوتا تو اس صورت میں ﴿لَذَہَبَ کُلُّ اِِلٰہٍ بِمَا خَلَقَ وَلَعَلَا بَعْضُہُمْ عَلٰی بَعْضٍ﴾ ہر ایک کے لیے اپنا اپنا ملک خاص ہوتا اور جس نے جو پیدا کیا ہوتا وہ اس کے ساتھ منفرد ہوتا، ایک کہتا کہ یہ میری مخلوق ہے اور دوسرا کہتا کہ یہ میری ہے۔ اس صورت میں ہر کوئی دوسرے پر غالب آنا چاہتا، اب اس کے بعد جو صورت حال پیدا ہوتی وہ دو حال سے خالی نہ ہوتی۔ یا تو دونوں برابر رہتے اور دونوں ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے سے عاجز و بے بس رہتے۔ پھر جب ان میں سے ہر