کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 242
شایان نہیں ہیں ۔
ساتویں اور آٹھویں آیت: ﴿تَبَارَکَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہٖ لِیَکُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرًاo نِ الَّذِیْ لَہٗ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَّلَمْ یَکُنْ لَّہٗ شَرِیْکٌ فِی الْمُلْکِ وَخَلَقَ کُلَّ شَیْئٍ فَقَدَّرَہٗ تَقْدِیْرًا﴾ (الفرقان: ۱۔ ۲) ’’بابرکت ہے وہ ذات جس نے فرقان کو اپنے بندے پر اتارا تاکہ وہ سب جہانوں کو ڈرانے والا بن جائے، وہ جس کی بادشاہت ہے آسمانوں اور زمین میں ، اور اس نے اولاد نہیں بنائی۔ اور نہ ہی بادشاہت میں اس کا کوئی شریک ہے، اور اس نے ہر چیز کو پیدا کیا اور پھر اس کا ٹھیک ٹھیک اندازہ لگایا۔‘‘
شرح:…[تَبَارَکَ]… بمعنی: تعالیٰ و تعاظم ’’وہ اعلیٰ و برتر اور باعظمت ہے۔‘‘
[الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِہٖ]… فرقان کو نازل کرنے والا اللہ تعالیٰ ہے۔
[الْفُرْقَانَ]… اس سے مراد قرآن ہے، اس لیے کہ وہ حق و باطل، کافر ومسلم، نیک و بد، ضار ونافع وغیرہا میں خط امتیاز کھینچنے والا ہے، قرآن سارے کا سارا فرقان ہے۔
[عَلٰی عَبْدِہٖ]… عبد سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ، آپ پر تنزیل قرآن کی بات کرتے وقت آپ علیہ الصلاۃ والسلام کی عبودیت کا ذکر کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ ترین مقام کی نشاندہی کرتا ہے، ایک دوسرے مقام پر یہی انداز اختیار کرتے ہوئے فرمایا گیا:
﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ عَلٰی عَبْدِہِ الْکِتٰبَ﴾ (الکہف: ۱)
’’سب تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے اپنے بندے پر کتاب اتاری۔‘‘
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کرتے اور مخالفین قرآن کو چیلنج کرتے وقت بھی آپ کی عبودیت کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد ہوا: ﴿وَ اِن کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا﴾ (البقرۃ: ۲۳) ’’اور اگر تم اس چیز سے شک میں ہو جیسے ہم نے اپنے بندے پر اتارا۔‘‘
اسی طرح معراج کے ساتھ آپ کی تکریم کے موقع پر فرمایا:
﴿سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِہٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ﴾ (الاسراء:۱)
’’پاک ہے وہ ذات جس نے سیر کروائی اپنے بندے کو مسجد حرام سے۔‘‘
اور سورئہ نجم میں فرمایا:
﴿فَاَوْحٰی اِِلٰی عَبْدِہٖ مَا اَوْحٰیo﴾ (النجم: ۱۰)’’پھر اس نے وحی بھیجی اپنے بندے کی طرف جو بھی بھیجی۔‘‘
یہ آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ انسان کو اللہ تعالیٰ کی عبودیت کے ساتھ موصوف کرنا درجہ کامل میں شمار ہوتا ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کی عبودیت ہی آزادی کی حقیقت ہے۔ جو اللہ کی عبادت نہیں کرتا وہ غیر اللہ کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہونے کی ذلت سے دو چار ہوتا ہے۔امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : [1]
[1] الکافیۃ الشافیۃ لابن القیم بشرح ابن عیسٰی : ۲/ ۴۶۶۔