کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 240
’’کہہ دیجئے! انہیں بلاؤ جن کو تم اللہ کے علاوہ معبود خیال کرتے ہو، وہ کسی چیز کے ذرہ برابر بھی مالک نہیں ہیں نہ آسمانوں میں اور نہ زمین میں ۔‘‘ یعنی معین صورت میں : ﴿وَمَا لَہُمْ فِیْہِمَا مِنْ شِرْکٍ﴾ (سباء: ۲۲) ’’اور ان میں ان کی کوئی شراکت بھی نہیں ہے۔‘‘ یعنی عمومی صورت میں : ﴿وَّ مَا لَہٗ مِنْہُمْ مِّنْ ظَہِیْرٍ﴾ (سباء: ۲۲) ’’اور نہ ان میں سے اس کا کوئی مددگار ہے۔‘‘ آسمانوں اور زمین میں ان میں سے کسی ایک نے بھی اس کی مدد نہیں کی۔﴿وَ لَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَۃُ عِنْدَہٗٓ اِلَّا لِمَنْ اَذِنَ لَہٗ﴾ (سباء: ۲۳) ’’اور اس کے ہاں شفاعت نفع نہیں دیتی مگر جسے وہ اجازت دے۔‘‘ اس طرح وہ جملہ اسباب منقطع ہوگئے جن کے ساتھ مشرکین اپنے جھوٹے معبودوں کے بارے میں وابستگی اختیار کیے ہوئے تھے۔ [وَ لَمْ یَکُنْ لَّہٗ وَلِیٌّ مِّنَ الذُّلِّ]… اس جگہ (من) تعلیل کے لیے ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کے اولیاء بڑی کثرت کے ساتھ موجود ہیں ۔قرآن کہتا ہے: ﴿اَ لَآ اِنَّ اَوْلِیَآئَ اللّٰہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَ لَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَo الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ کَانُوْا یَتَّقُوْنَo﴾ (یونس: ۶۲۔ ۶۳) ’’خبردار! یقینا جو اللہ کے دوست ہیں ، ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ وہ جو ایمان لائے اور اللہ سے ڈرتے رہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ ایک حدیث قدسی میں فرماتا ہے: ’’جس نے میرے ولی سے عداوت رکھی میرا اس کے ساتھ اعلان جنگ ہے۔‘‘[1] اس جگہ جس ولی کی نفی کی گئی ہے وہ وہ ہے جو اسے عاجزی وناتوانی سے بچائے۔ اور یہ اس لیے کہ اللہ ناتواں نہیں ہے، ساری قوتیں اسی کے پاس ہیں ، کمال عزت کی وجہ سے اسے کسی بھی طرح سے ناتوانی لاحق نہیں ہو سکتی۔ [وَ کَبِّرْہُ تَکْبِیْرًا]… یعنی اپنی زبان اور دیگر جوارح سے اللہ کی بڑائی بیان کریں اور دل میں بھی یہ اعتقاد رکھیں کہ وہ ہر چیز سے بڑا ہے، اور یہ کہ آسمانوں اور زمین میں اسی کی بڑائی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا معمول یہ تھا کہ وہ اوپر چڑھتے وقت اللہ کی بڑائی بیان کرتے۔[2] ایسا حالت سفر میں ہوتا اور یہ اس لیے کہ اوپر چڑھتے وقت انسان کے دل میں دوسروں پر برتری کا خیال آسکتا ہے، لہٰذا برتری کے اس احساس کو ختم کرنے کے لیے (اللہ اکبر) پڑھنا چاہیے۔ اسی طرح وہ نیچے اترتے وقت (سبحان اللّٰہ) پڑھا کرتے، اس لیے کہ نزول پستی ہے، ایسے میں بندہ سبحان اللہ پڑھ کر اللہ تعالیٰ کو اس پستی سے منزہ بتاتا ہے۔ [تَکْبِیْرًا]… یہ مصدر موکد ہے اور اس سے مقصود تعظیم ہے، یعنی کبرہ تکبیرا عظیما ’’اس کی تکبیر عظیم بیان کریں ۔‘‘
[1] صحیح بخاری: ۶۵۰۲ عن ابی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ۔ [2] صحیح بخاری: ۲۹۹۳ عن جابر رضی اللہ عنہ ۔