کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 24
جائے۔ یہی وجہ تھی کہ آپ نے اس قسم کے لوگوں کو سخت ترین سزا دی، چنانچہ آپ کے حکم سے خندقین کھودی گئیں پھر ان میں آگ بھڑکا کر انہیں ان میں پھینک کر زندہ جلا دیا گیا، اور یہ اس لیے کہ انہوں نے سنگین ترین جرم کا ارتکاب کیا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس دوران عبداللہ بن سباء بھاگ گیا مگر لوگ اسے گرفتار کرنے میں ناکام رہے۔ الغرض حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابن سباء یہودی کے پیروکاروں کو اس جرم کی پاداش میں زندہ جلا دیا کہ انہوں نے ان میں الوہیت کا دعویٰ کیا تھا۔
خلاصہ کلام کے طور پر ہم یہ کہنا چاہیں گے کہ اہل قبلہ میں سے کوئی بھی شخص توحید الوہیت اور توحید ربوبیت کا انکار نہیں کرتا، اگرچہ اہل بدعت میں سے بعض لوگ بعض انسانوں کو مقام الوہیت پر فائز تسلیم کرتے ہیں ۔
۳۔ توحید الاسماء والصفات:…توحید کی اس قسم میں اہل قبلہ کا شدید اختلاف رہا ہے جس کے نتیجہ کے طور پر وہ تین گروہوں میں تقسیم ہوگئے: ممثلہ، معطلہ اور معتزلہ، پھر دوسری قسم کے لوگوں میں کچھ تکذیب کے مرتکب ہوئے اورکچھ تحریف کے۔
اس امت میں جنم لینے والی سب سے پہلی بدعت، خوارج کی بدعت تھی، اس لیے کہ ان کے رئیس ذوالخویصرہ تمیمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف خروج کیا اور یہ اس وقت کی بات ہے جب آپ نے سپاہ اسلام کے ہاتھ لگنے والا کچھ سونا لوگوں میں تقسیم کیا تو یہ کھڑا ہوکر کہنے لگا: یا محمد! عدل سے کام لیں ۔[1]
شریعت اسلامیہ کے خلاف سر اٹھانے والا یہ پہلا خروج تھا، پھر حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آخری ایام میں حضرت علی و معاویہ کے مابین پیدا ہونے والے فتنہ کے دوران یہ معاملہ مزید سنگین ہو گیا۔انہوں نے مسلمانوں کو کافر گردانتے ہوئے ان کے خون کو مباح قرار دیا۔
اس کے بعد قدریہ کی بدعت معرض وجود میں آئی جو کہ اس امت کے مجوسی ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بندوں کے افعال کو مقدر نہیں کیا، وہ نہ تو اس کی مشیت کے تابع ہیں اور نہ ہی اس کے پیدا کردہ، بلکہ ان کے زعماء اور غالی قسم کے لوگ تو یہاں تک کہا کرتے تھے کہ بندوں کے افعال کا نہ تو اللہ تعالیٰ کو علم ہوتا ہے اور نہ ہی وہ یوں لوح محفوظ میں مکتوب ہوتے ہیں ، اور یہ کہ جب تک بندے کوئی کام کر نہیں لیتے اس وقت تک اللہ کو ان کا علم نہیں ہوتا۔ ان کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ امور از سر نو معرض وجود میں آتے ہیں ۔ ان لوگوں نے حضرت عبداللہ بن عمر، عبادہ بن صامت اور کچھ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا زمانہ پایا جو کہ عصر صحابہ رضی اللہ عنہم کے آخری ایام تھے۔
اس کے بعد ارجاء کی بدعت منظر عام پر آئی ،جس نے تابعین کی اکثریت کا دور دیکھا، مرجیہ کا عقیدہ ہے کہ ایمان کی موجودگی میں کوئی بھی معصیت ضرر رساں نہیں ہوتی، آپ زنا کریں ، چوری کریں ، شراب نوشی کریں ، قاتل بن جائیں ، جب تک آپ مومن ہیں ہر معصیت کا ارتکاب کریں ، کوئی بھی معصیت آپ کے ایمان کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گی اور آپ ہر حالت میں کامل الایمان ہی رہیں گے۔
[1] صحیح بخاری:۳۶۱۰۔ صحیح مسلم :۱۰۶۴۔۱۴۸۔