کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 239
وَلِیٌّ مِّنَ الذُّلِّ وَ کَبِّرْہُ تَکْبِیْرًا﴾ (الاسراء: ۱۱۱) ’’اور کہہ دو کہ سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جس نے کسی کو اپنی اولاد نہیں بنایا اور بادشاہت میں اس کا کوئی شریک نہیں ، اور نہ ہی ناتوانی سے بچنے کے لیے اسے کسی حمایتی کی ضرورت ہے اور اس کی بڑائی بیان کرتے رہو جس طرح کہ بڑائی بیان کرنے کا حق ہے۔‘‘ شرح:…[قُلِ]… اس جیسے مواقع پر خطاب یا تو خاص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوتا ہے یا ہر اس شخص سے جس کے ساتھ خطاب کرنا درست ہو۔اگر تو خطاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہو تو وہ قصد اول کے طور پر آپ کے ساتھ خاص ہوتا ہے اور آپ کی امت آپ کے تابع ہوتی ہے۔ اگر یہ عام ہو تو قصد اول کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسروں پر مشتمل ہوتا ہے۔ [اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ] … اس کی تفسیر پہلے گزر چکی ہے، اور یہ کہ حمد، محبت اور تعظیم کے ساتھ محمود کو کمال کے ساتھ موصوف کرنے سے عبارت ہے۔ [لِلّٰہِ ] … اس جگہ (لام) استحقاق اور اختصاص کے لیے ہے۔ استحقاق کے لیے تو اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کی جاتی ہے اور وہ لائق حمدوثناء ہے، اور اختصاص کے لیے اس طرح کہ جس حمد کے ساتھ اللہ کی حمد بیان کی جاتی ہے وہ اس حمد جیسی نہیں ہوتی جس کے ساتھ اس کے غیر کی حمد بیان کی جاتی ہے، اللہ کی حمد کامل ترین، عظیم ترین ہوتی ہے۔ زیادہ عام اور ہمہ گیر ہوتی ہے۔ [الَّذِیْ لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا]… اس کا شمار صفات سلبیہ میں ہوتا ہے، اس نے کسی کو اپنی اولاد اس لیے نہیں بنایا کہ اس کی صفات درجہ کمال کی ہیں اور اس کی غیروں سے بے نیازی بھی ایسی ہی ہے، نیز اس لیے بھی کہ وہ بے مثل وبے مثال ہے، اگر اس کی اولاد ہوتی تو وہ اس کی مثل ہوتی اگر اس کی اولاد ہوتی تو وہ اس کا محتاج ہوتا اگر اس کی اولاد ہوتی تو وہ ناقص ہوتا، اس لیے کہ اس کی مخلوق سے کسی کا اس کے مشابہہ ہونا نقص ہے اور وہ نقص سے مبرّا ہے۔ [وَلَدًا]… یہ مذکر ومونث کو شامل ہے اور اس میں یہود ونصاریٰ اور مشرکین کا رد ہے۔ یہودیوں نے عزیر کو اللہ کی اولاد قرار دیا۔ نصاریٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کی اولاد قرار دیا۔ اور مشرکین نے کہا کہ فرشتے اللہ کی اولاد ہیں ۔ [وَّ لَمْ یَکُنْ لَّہٗ شَرِیْکٌ فِی الْمُلْکِ]… یہ ارشاد ربانی ﴿لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا﴾ پر معطوف ہے۔ یعنی وہ اللہ جس کا اس کی بادشاہت میں کوئی شریک نہیں ، نہ خلق میں ، نہ ملک میں اور نہ تدبیر میں ۔ اللہ کے علاوہ جو کچھ بھی ہے وہ اللہ کی مخلوق ہے اور اس کی ملکیت میں ہے، وہ جس طرح چاہتا ہے اس کی تدبیر کرتا ہے اور اس بارے میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿قُلِ ادْعُوا الَّذِیْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَا یَمْلِکُوْنَ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ فِی السَّمٰوٰتِ وَ لَا فِی الْاَرْضِ﴾ (سباء: ۲۲)