کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 236
[فَاعْبُدْہُ وَ اصْطَبِرْ لِعِبَادَتِہٖ]… (فا) قبل ازیں کے ارشاد باری تعالیٰ: ﴿رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَمَا بَیْنَہُمَا﴾ (مریم: ۶۵) پر متفرع ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ربوبیت کا ذکر کیا اور پھر اس پر اپنی عبادت کے وجوب کو متفرع فرمایا، اس لیے کہ ربوبیت کا اقرار کرنے والے پر الوہیت وعبودیت کا اقرار کرنا لازم ہو جاتا ہے، بصورت دیگر تناقض لازم آئے گا۔ [فَاعْبُدْہُ]… یعنی از راہ تعظیم و محبت اس کے سامنے عاجزی وانکساری کا اظہار کریں ، عبادت سے مراد متعبدبہ بھی ہوتا ہے۔ اور تعبد بھی جو کہ عبد کے فعل سے عبارت ہے۔ [وَ اصْطَبِرْ]… اصل میں اصتبر تھا، علت تصریفی کی وجہ سے تاء کو طاء میں تبدیل کر دیا گیا۔ الصبر: حبس نفس سے عبارت ہے۔ کلمہ (اصطبر) (اصبر) سے زیادہ بلیغ ہے، اس لیے کہ وہ مشقت پر دلالت کرتا ہے۔ یعنی صبر کیجئے اگرچہ وہ آپ کو ناگوار ہی گزرے، اور اس طرح ثابت قدم رہیں جس طرح میدان جنگ میں ایک ساتھی اپنے دوسرے ساتھی کے ساتھ ثابت قدم رہتا ہے۔ [لِعِبَادَتِہٖ]… لام (علی) کے معنی میں ہے، یعنی عبادت پر صبر کیجئے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا گیا: ﴿وَاْمُرْ اَہْلَکَ بِالصَّلٰوۃِ وَ اصْطَبِرْ عَلَیْہَا﴾ (طٰہٰ: ۱۳۲) ’’اپنے گھر والوں کو نماز کی تلقین کریں اور اس پر صبر کریں ۔‘‘ ایک دوسرے قول کی رو سے لام اپنے اصل پر ہی ہے۔ یعنی عبادت کے لیے صبر کریں ۔ [ہَلْ تَعْلَمُ لَہٗ سَمِیًّا]… (ہل) استفہام کے لیے ہے اور اس میں تحدی کے معنی کی آمیزش ہے، یعنی اگر تم سچے ہو تو پھر بتاؤ۔﴿ہَلْ تَعْلَمُ لَہٗ سَمِیًّا﴾ ’’کیا تم اس کے کسی ہم نام کو جانتے ہو؟‘‘ سمی: شبیہ اور نظیر سے عبارت ہے، یعنی کیا تم کسی ایسی نظیر کو جانتے ہو جو اس کے نام جیسا استحقاق رکھتی ہو؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔ ﴿ہَلْ تَعْلَمُ لَہٗ سَمِیًّا﴾ میں ذکر کردہ صفت کا شمار صفات سلبیہ میں ہوتا ہے۔ سوال : آپ قبل ازیں کہہ چکے ہیں کہ صفات سلبیہ ثبوت کو متضمن ہوتی ہیں ۔ اس جگہ نفی کون سے ثبوت کو متضمن ہے؟ جواب : اس جگہ نفی کمال مطلق کو متضمن ہے، اس طرح آیت کا معنی ہوگا: کیا تم اس کے کمال مطلق کی وجہ سے جس میں کوئی بھی اس جیسا نہیں ہے اس کے کسی ہم نام کو جانتے ہو؟ دوسری آیت: ﴿وَلَمْ یَکُنْ لَّـہٗ کُفُوًا اَحَدٌ﴾ (الاخلاص: ۴) ’’اور اس کا کوئی بھی ہمسر نہیں ہے۔‘‘ شرح:…چونکہ نکرہ سیاق نفی میں ہے لہٰذا عام ہے۔ [کُفُوًا]… اس میں تین قراء ات ہیں : کُفُواً، کُفُأً اور کُفُوْاً۔ اگر یہ ہمزہ کے ساتھ ہو توفاء ساکن ہوگی یا مضموم اور اگر واؤ کے ساتھ ہو تو پھر واؤ مضموم ہوگی اور بس۔ اس سے ان لوگوں کی غلطی کا پتا چلتا ہے جو اسے واو کے ساتھ بھی (فاء) کی تسکین کے ساتھ (کُفُوًا) پڑھتے ہیں ۔