کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 233
اور یہ بات اس قاعدہ عامہ سے ماخوذ ہے کہ اسماء کے اتفاق سے نہ تو مسمیات کا تماثل لازم آتا ہے اور نہ ہی صفات کے اتفاق سے موصوفین میں تماثل لازم آتا ہے۔ چوتھی آیت: یہ عزت کے بارے میں ہے:﴿فَبِعِزَّتِکَ لَاُغْوِیَنَّہُمْ اَجْمَعِیْنَo﴾ (ص:۸۲) ’’مجھے تیری عزت کی قسم! میں ان سب کو گمراہ کروں گا۔‘‘ اس جگہ (باء) قسم کے لیے ہے، ابلیس نے دیگر صفات سے ہٹ کر اللہ تعالیٰ کی عزت کی قسم اٹھائی، اس لیے کہ یہ مقام ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کا تھا، گویا کہ اس نے یہ کہا کہ مجھے تیری اس عزت کی قسم جس کی وجہ سے تجھے ساری مخلوق پر غلبہ حاصل ہے میں اولاد آدم کو گمراہ کروں گا اور ان پر غلبہ حاصل کروں گا، یہاں تک کہ وہ رشد و ہدایث کو ترک کرکے گمراہی میں مبتلا ہو جائیں گے۔ مگر اس سے اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے مستثنیٰ ہیں ، شیطان انہیں گمراہ کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اِنَّ عَبَادِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْہِمْ سُلْطٰنٌ﴾ (الحجر:۴۲) ’’تجھے میرے بندوں پر کوئی غلبہ حاصل نہیں ہوگا۔‘‘ ان دونوں آیتوں میں اللہ تعالیٰ کے لیے صفت عزت کا اثبات ہے۔ دوسری آیت میں اس امر کا اثبات ہے کہ شیطان بھی صفات باری تعالیٰ کا اقرار کرتا ہے، دریں حالات ایسا کیوں ہے کہ اولاد آدم میں سے کچھ لوگ تمام صفات باری تعالیٰ یا ان میں سے بعض کا انکار کرتے ہیں ؟ کیا ایسا تو نہیں کہ شیطان ان منکرین صفات سے اللہ تعالیٰ کے بارے میں زیادہ عقل رکھتا ہے؟ ان صفات سے مستفاد امور جب ہمیں معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ درگزر سے کام لینے والا بھی ہے اور قادر مطلق بھی، تو ہمارا یہ عقیدہ ہم پر اس امر کو واجب قرار دے گا کہ ہم اس سے ہمیشہ عفوو کرم کے خواستگار رہیں ، اور اس سے یہ اُمید رکھیں کہ وہ ہم سے سرزد ہونے والی تقصیرات سے درگزر فرمائے گا۔ اسی طرح جب ہمارا اللہ تعالیٰ کے عزیز و غالب ہونے پر ایمان ہوگا تو ہمارے لیے کوئی ایسا کام کرنا ممکن نہیں رہے گا جس کی وجہ سے ہم اس کے خلاف جنگ کرنے کے مرتکب ہوں ۔ مثلاً: سودی لین دین کرنے والے کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ رویہ محاربہ پر مبنی ہوتا ہے۔ ﴿فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ﴾ (البقرہ:۲۷۹) ’’پھر اگر تم نہیں رکتے ہو تو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کے لیے خبر دار ہو جاؤ۔‘‘ جب ہمیں معلوم ہو جائے گا کہ اللہ عزت والا ہے۔ اور وہ کسی سے مغلوب نہیں ہوتا تو ہمارے لیے اللہ کے ساتھ محاربہ کے لیے پیش قدمی کرنا ممکن نہیں رہے گا۔ اسی طرح ڈاکہ ذنی بھی محاربہ ہے۔ ﴿اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ وَ یَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ یُّقَتَّلُوْٓا اَوْ یُصَلَّبُوْٓا اَوْ