کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 231
فوقتاً یاد کرتا رہتا ہے۔ اس اعتبار سے صفح مجرد عفو سے زیادہ بلیغ ہے۔ [اَ لَا تُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَکُمْ]… (الا) پیش کش کرنے کے لیے ہے، اور اس کا جواب ہے: کیوں نہیں ، ہمیں یہ بات پسند ہے۔ [وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ]… (غفور) یا تو مبالغہ کے لیے اسم فاعل ہے یا صفت مشبہ۔ دوسری صورت میں یہ صفت لازم ثابت پر دلالت کرتی ہے جو کہ صفت مشبّہ کا تقاضا ہے، جبکہ پہلی صورت میں یہ صیغہ تکثیر کی طرف محول ہے، جو اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بڑی کثرت کے ساتھ معاف فرمایا کرتا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ صیغہ دونوں چیزوں کا جامع ہے، یہ صفت مشبّہ بھی ہے، اس لیے کہ مغفرت اللہ تعالیٰ کی دائمی صفت ہے، نیز یہ ایسا فعل بھی ہے جو اس کی طرف سے بکثرت واقع ہوا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مغفرت کس قدر زیادہ اور کس قدر باعظمت ہے۔ [رَحِیْمٌ]… یہ بھی اسم فاعل اور مبالغہ کے صیغہ کی طرف محول ہے، رحم سے اسم فاعل تو رحیم آتا ہے، مگر رحمت باری تعالیٰ کی کثرت ووسعت اور مرحومین کی کثرت کی وجہ سے اسے مبالغہ کے صیغہ رحیم میں تحویل کر دیا گیا۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ان دونوں اسموں کو ایک ساتھ ذکر کیا اس لیے کہ یہ دونوں ملتے جلتے معنی پر دلالت کرتے ہیں ۔ مغفرت باری تعالیٰ مکروب اور گناہ کے آثار کے زوال کا پیغام لے کر جبکہ رحمت ایزدی حصول مطلوب کی بشارت لے کر آتی ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے جنت سے فرمایا: ’’تو میری رحمت ہے میں تیرے ساتھ جس پر چاہوں گا رحم کروں گا۔‘‘[1] تیسری آیت عزت کے بارے میں : ﴿وَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُوْلِہٖ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ﴾ (المنافقون: ۸) ’’اور اللہ کے لیے ہے عزت اور اس کے رسول کے لیے اور مومنوں کے لیے۔‘‘ یہ آیت منافقوں کے اس قول کے جواب میں نازل ہوئی: ﴿لَئِنْ رَّجَعْنَآ اِِلَی الْمَدِیْنَۃِ لَیُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْہَا الْاَذَلَّ﴾ (المنافقون: ۸) ’’اگر ہم مدینہ واپس لوٹے تو اس سے عزت والا ذلیل کو ضرور باہر نکال دے گا۔‘‘ وہ کہنا یہ چاہتے تھے کہ ہم معزز ہیں جبکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور مومنین ذلیل ہیں ، مگر اللہ تعالیٰ نے یہبات واضح کر دی کہ بڑے باعزت ہونا تو بڑی دور کی بات ہے ان کی تو میرے نزدیک سرے سے ہی کوئی عزت ہی نہیں ہے عزت تو اللہ کے لیے ہے، اس کے رسول کے لیے ہے اور مومنین کے لیے ہے۔ منافقین کے قول کا اصل مقتضی یہ ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل ایمان ہی وہ لوگ ہیں جو انہیں مدینہ سے نکال باہر کریں گے اس لیے کہ معزز وہ ہیں نہ کہ منافقین، وہ تو ذلیل ہیں ،یہی وجہ ہے کہ وہ ہر زور دار آواز کو اپنے اوپر ٹوٹنے والی آفت خیال کرتے ہیں ، ان کے ڈر پوک اور بزدل ہونے کا یہ عالم ہے کہ مومنوں کے سامنے جاتے ہیں تو اپنے مومن ہونے کا پروپیگنڈہ کرتے ہیں اور اپنے جسے منافق شیطانوں کے پاس جاتے ہیں تو انہیں اپنی وفاداری کا یقین دلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہم صرف مسلمانوں کا مذاق اڑاتے ہیں ۔ اور یہ ذلت کی انتہاہے۔
[1] صحیح بخاری: ۴۸۵۰۔ صحیح مسلم: ۲۸۴۵ عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ ۔