کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 23
اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ ارشاد: ﴿اَئِفْکًا آلِہَۃً دُوْنَ اللّٰہِ تُرِیْدُوْنَ ﴾ (الصافات:۸۶) ’’کیا تم اللہ کے علاوہ جھوٹے معبودوں کے طالب ہو۔‘‘ تو اس میں اور اس شہادت میں تطبیق کی کیا صورت ہو گی کہ’’ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ؟‘‘ اس کا جواب یہ ہے کہ غیر اللہ کی الوہیت، الوہیت باطلہ ہے، اور یہ صرف نام کی مشابہت ہے۔ ارشاد ہوتا ہے: ﴿اِِنْ ہِیَ اِِلَّا اَسْمَآئٌ سَمَّیْتُمُوْہَآ اَنْتُمْ وَآبَاؤُکُمْ مَا اَنزَلَ اللّٰہُ بِہَا مِنْ سُلْطَانٍ﴾ (النجم:۲۳) ’’یہ صرف نام ہیں جو تم نے اور تمہارے آباؤ اجداد نے رکھ چھوڑے ہیں ، ان کی اللہ نے کوئی دلیل نہیں اتاری۔‘‘ اس بنا پر ان کی الوہیت باطل ہے۔ اگر چہ ان کی عبادت کی گئی اور گمراہ لوگوں نے ان کے سامنے ذلت و انکساری کا اظہار بھی کیا، مگر وہ معبود بنائے جانے کی صلاحیت سے عاری تھے، ان کی پرستش تو کی گئی مگر تھے وہ باطل خدا۔ ﴿ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ ہُوَ الْحَقُّ وَ اَنَّ مَا یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہِ الْبَاطِلُ﴾ (لقمان:۳۰) ’’یہ اس لیے کہ اللہ ہی معبود برحق ہے اور جنہیں وہ اس کے سوا پکارتے ہیں وہ باطل ہے۔ ‘‘ توحید کی ان دو قسموں کا مسلمانوں میں سے کوئی بھی انکار نہیں کرتا، ان میں سے ہر شخص اللہ تعالیٰ کو الوہیت و ربوبیت کے ساتھ یکتا تسلیم کرتا ہے۔ البتہ بعد میں کچھ ایسے لوگ ضرور منظر پر آئے جنہوں نے کسی انسان کے الٰہ ہونے کا دعویٰ کر دیا، مثلاً: غالی قسم کے رافضی جو کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی الوہیت کے قائل ہیں ، ان کا زعیم عبداللہ بن سبا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہنے لگا۔ آپ الٰہ الحق ہیں ۔یہ شخص اصل میں یہودی تھا، جو اہل اسلام کے دین میں بگاڑ پیدا کرنے کی غرض سے اہل بیت کا طرف دار ہونے کا دعویٰ لے کر دین اسلام میں داخل ہوا، شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’اس شخص نے اسلام میں وہی کردار ادا کیا جو پولس نے عیسائیت قبول کر کے اسے بگاڑ نے میں ادا کیا۔‘‘[1] یہودی الاصل عبداللہ بن سباء نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سامنے انہیں معبود حقیقی کہنے کی جسارت کی، مگر وہ اس بات کو پسند نہیں کر سکتے تھے کہ کوئی شخص انہیں ان کے اصل رتبہ سے اوپر اٹھا دے، وہ اپنے علم تجربہ اور عدل و انصاف کی بدولت کوفہ کی مسجد کے منبر پر کھڑے ہو کر فرمایا کرتے تھے: ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امت کی بہترین شخصیت ابو بکر رضی اللہ عنہ ہیں اور ان کے بعد عمر رضی اللہ عنہ ۔‘‘[2] آپ اس بات کا اعلان دوران خطبہ فرماتے اور بڑے تواتر کے ساتھ فرماتے۔ اس قسم کی مبنی برحقیقت بات کرنے والے اور اہل فضل کے لیے ان کی فضیلت کا برسر منبر اعتراف کرنے والے بھلااس بات کو کیونکر پسند کر سکتے تھے کہ انہیں معبود حقیقی کہا
[1] اللالکائی:’’شرح السنۃ‘‘:۲۸۲۳، ابن تیمیۃ: ’’منھاج السنۃ‘‘۱/۲۹’’فتح الباری‘‘ میں حافظ نے اسے صحیح کہا ۱۲/۲۷۰۔ [2] مسند امام احمد:۱/۱۱۰۔ امام احمد: ’’فضائل الصحابہ‘‘ :۳۹۷۔ ابن ابی عاصم: ’’السنۃ‘‘ ۲/۵۷۰۔ ابن ماجہ ۱۰۶ عن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اصل حدیث صحیح بخاری میں ہے:۳۶۷۱ جو کہ محمد بن حنفیہ سے مروی ہے۔