کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 229
﴿وَ اَنْ تَعْفُوْٓا اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی﴾ (البقرۃ: ۲۳۷)’’اور اگر تم معاف کر دو تو یہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔‘‘ اور اس جگہ ارشاد ہوتا ہے: ﴿اَوْ تُخْفُوْہُ اَوْ تَعْفُوْا عَنْ سُوْٓئٍ فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَفُوًّا قَدِیْرًاo﴾ یعنی اگر تم برائی سے در گزر کرو گے تو اللہ تم سے در گزر فرمائے گا۔ یہ حکم اس جواب سے ماخوذ ہے: ﴿فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَفُوًّا قَدِیْرًا﴾ یعنی وہ تم سے بدلہ لینے کی بھر پور طاقت رکھنے کے باوجود تم سے در گزر فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے اس جگہ عفو اور قدیر کو ایک ساتھ ذکر کیا ہے، اس لیے کہ عفو کا کمال یہ ہے کہ وہ قدرت کے باوجود ہو، بے بسی کی وجہ سے معاف کرنے والا لائق ستائش نہیں ہوتا، اس لیے کہ وہ انتقام لینے سے قاصر ہے، عفو کا مل یہ ہے کہ انسان بدلہ لینے کی طاقت رکھنے کے باوجود درگزر سے کام لے۔ عفو اور قدیر کو ایک جگہ پر ذکر کرنے کی یہی وجہ ہے۔ العفو: اپنے بندوں کے گناہوں سے درگزر کرنے والا۔ عام طور پر عفو کا تعلق ترک واجبات کے ساتھ اور مغفرت کا ارتکاب محرمات کے ساتھ ہوا کرتا ہے۔ القدیر: قدرت والا، قدرت ایسی صفت ہے جس کی وجہ سے فاعل بے بسی کے بغیر فعل کی سر انجام دہی کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ آیت صفت عفو اور قدرت کو متضمن ہے۔ دوسری آیت مغفرت اور رحمت کے بارے میں : ﴿وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا اَ لَا تُحِبُّونَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَکُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ﴾ (النور: ۲۲) ’’انہیں معاف کردینا اور در گزر سے کام لینا چاہیے کیا تم اس بات کو پسند نہیں کرتے ہو کہ اللہ تمہیں بخش دے؟‘‘ شرح:…یہ آیت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بارے میں اتری مسطح بن اثاثہ رضی اللہ عنہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خالہ کے بیٹے تھے اور یہ ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر بہتان تراشی اور ناروا جسارت کی۔ واقعہ ٔافک[1] کی قدرے تفصیل یہ ہے کہ کچھ منافقین نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی عزت وآبرو کو پامال کرنے کے لیے زبان درازی کی، جس سے درحقیقت وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر کو داغدار کرنا اور آپ کو رسوا کرنا چاہتے تھے۔ والیعاذ باللہ۔ جبکہ اللہ نے انہیں رسوا کر دیا۔ اور فرمایا: ﴿وَالَّذِیْ تَوَلّٰی کِبْرَہُ مِنْہُمْ لَہٗ عَذَابٌ عَظِیْمٌo﴾ (النور: ۱۱) ’’اور ان میں سے جس نے اس بہتان کا بڑا بوجھ اٹھایا اس کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔‘‘ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر بہتان لگانے والوں کی اکثریت منافقین پر مشتمل تھی جبکہ چند ایسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی اس سازش کا شکار ہوگئے جو تقویٰ وصلاح میں بڑا مقام رکھتے تھے۔ ان لوگوں میں مسطح بن اثاثہ رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے، جب انہوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر بہتان تراشی کے حوالے سے لب کشائی کی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے قسم اٹھائی کہ وہ آئندہ کے لیے ان
[1] واقعہ افک کو صحیح بخاری: ۴۷۵۷۔ ۴۷۵۸ اور صحیح مسلم: ۲۷۷۰ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے۔