کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 226
اس لیے کہ یہ کبھی قابل تعریف ہوتی ہین اور کبھی قابل مذمت، قابل تعریف ہونے کی صورت میں ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو موصوف کیا جا سکتا ہے جبکہ دوسری صورت میں نہیں ، مثلاً اس طرح کہا جا سکتا ہے:اللّٰہ خیر الماکرین ’’اللہ بہتر تدبیر کرنے والا ہے، اللّٰہ ماکر باالماکرین ’’اللہ تدبیر کرنے والوں کے ساتھ تدبیر کرتا ہے۔ استہزاء بھی اسی قبیل سے ہے۔ اللہ تعالیٰ کے بارے میں علی الاطلاق یہ کہنا درست نہیں ہے کہ وہ مذاق کرنے والا ہے، اس لیے کہ استہزاء لہو ولعب کی ایک قسم ہے جو کہ اللہ تعالیٰ سے منفی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے: ﴿وَمَا خَلَقْنَا السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَہُمَا لَاعِبِیْنَo﴾ (الدخان: ۳۸) ’’اور ہم نے زمینوں ، آسمانوں اور جو کچھ ان کے درمیان ہے کو کھیلتے ہوئے پیدا نہیں کیا۔‘‘ مگر اس کی طرف سے استہزاء، ایسا کرنے والوں کے مقابلہ میں جائز اور قابل تعریف ہوگا، جیسا کہ فرمایا گیا: ﴿وَ اِذَا لَقُوا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْٓا اٰمَنَّا وَ اِذَا خَلَوْا اِلٰی شَیٰطِیْنِہِمْ قَالُوْٓا اِنَّا مَعَکُمْ اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَہْزِئُ وْنَo اَللّٰہُ یَسْتَہْزِیُٔ بِہِمْ﴾ (البقرۃ: ۱۵) ’’اور منافقین جب ایمان والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اور جب اپنے شیطانوں کے ساتھ الگ ہوتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں ، ہم تو صرف مذاق کرنے والے ہیں اللہ ان کے ساتھ مذاق کرتا ہے۔‘‘ اہل سنت اللہ تعالیٰ کے لیے ان معانی کا اثبات علی سبیل الحقیقہ کرتے ہیں ، جبکہ اہل تحریف کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو موصوف کرنا کسی بھی صورت جائز نہیں ہے۔ ان کے نزدیک یہ مشاکلہ لفظیہ کے باب سے ہے۔ ان کا معنی الگ الگ ہے۔ جس طرح کہ ﴿رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَ رَضُوْا عَنْہُ﴾ (المائدۃ: ۱۱۹) ’’اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے۔‘‘ مگر ہم کہتے ہیں کہ تمہارا یہ موقف ظاہر نص اور اجماع سلف کے خلاف ہے۔ سوال : ہمارے سامنے خلفاء راشدین میں سے کسی ایک کا کوئی ایسا قول پیش کریں جس میں انہوں نے بتایا ہو کہ اللہ تعالیٰ کے حوالے سے مکر، کید، استہزاء اور خداع سے ان کے حقیقی معانی مراد ہیں ۔ جواب : ان لوگوں نے قرآن پڑھا اور اس پر ایمان لائے، ان کا اس متبادر معنی کو کسی دوسرے معنی کی طرف منتقل نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ انہوں نے اس معنی کو تسلیم کیا اور اسے باقی رکھا اور یہ اجماع ہے، جس کے بارے میں ہمارے لیے یہی کہنا کافی ہے کہ ان میں سے کسی ایک سے بھی ظاہر کلام کے خلاف کچھ منقول نہیں ہے۔ اور نہ ہی یہ منقول ہے کہ اس نے رضا کی تفسیر ثواب کے ساتھ اور کید کی سزا کے ساتھ کی ہو۔ لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ تم کہتے ہو کہ اس پر سلف کا اجماع ہے مگر وہ اجماع ہے کہاں ؟ اس کا جواب یہ کہ نصوص کے ظاہری مفہوم کے خلاف ان سے کچھ منقول نہ ہونا ہی اجماع کی دلیل ہے۔