کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 224
کہا جاتا ہے کہ جب وہ لوگ حضرت صالح علیہ السلام کو قتل کرنے کے ارادہ سے گھر سے نکلے تو رات کا انتظار کرنے کے لیے ایک غار میں پناہ گزیں ہوئے تو غار کا راستہ بند ہوگیا اور وہ اس کے اندر ہی ہلاک ہوگئے… جبکہ حضرت صالح علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو کوئی گزند نہ پہنچی، اسی کے بارے میں اللہ فرماتا ہے: ﴿وَمَکَرُوْا مَکْرًا وَّمَکَرْنَا مَکْرًا﴾ مَکْرًا کو دونوں جگہوں میں نکرہ لایا گیا ہے جو کہ تعظیم کے لیے ہے، یعنی انہوں نے بہت بڑا مکر کیا اور ہم نے اس سے بھی بڑا مکر کیا۔ چوتھی آیتکید کے بارے میں : ﴿اِِنَّہُمْ یَکِیْدُوْنَ کَیْدًاo وَاَکِیْدُ کَیْدًاo﴾ (الطارق: ۱۵۔ ۱۶) ’’بیشک وہ اپنی تدبیریں کر رہے ہیں اور میں اپنی کر رہا ہوں ۔‘‘ شرح:…[اِِنَّہُمْ] … یعنی کفار مکہ ﴿یَکِیْدُوْنَ﴾ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ﴿کَیْدًا﴾ یعنی وہ لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اور آپ کی دعوت سے متنفر کرنے کے لیے ایسی ایسی تدبیریں کرتے ہیں جن کی کوئی مثال نہیں ملتی لیکن اللہ تعالیٰ کی تدبیر ان سے کہیں بڑی اور بھاری ہے۔ [وَاَکِیْدُ کَیْدًا]… یعنی میری تدبیر ان کی تدبیروں سے بڑی ہے۔ ان کی ایک تدبیر اور مکر کا اللہ تعالیٰ نے ایک جگہ اس طرح ذکر فرمایا ہے: ﴿وَ اِذْ یَمْکُرُبِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِیُثْبِتُوْکَ اَوْ یَقْتُلُوْکَ اَوْیُخْرِجُوْکَ﴾ (الانفال: ۳۰) ’’اور جب کافر لوگ تمہارے بارے یہ تدبیریں کر رہے تھے کہ وہ تمہیں قید کر دیں یا قتل کر دیں یا (مکہ سے) نکال دیں ۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی دعوت سے جان چھڑانے کے لیے کفار مکہ کے سامنے تین تجاویز تھیں ۔[1] ۱۔انہیں قید کر دیا جائے۔ ۲۔قتل کر دیا جائے۔ ۳۔مکہ سے باہر نکال دیا جائے۔ ابلیس لعین کے مشورے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کر دینے کی رائے کو بہترین رائے قرار دیا گیا، ابلیس نجدی شیخ کے روپ میں ان کے پاس آیا اور کہنے لگا: قریش مکہ کے دس قبائل سے دس جوانوں کا انتخاب کر کے ان میں سے ہر ایک کو ایک ایک تلوار دے دو اور وہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر حملہ آور ہو کر انہیں بیکبار قتل کر ڈالیں ، اس طرح ان دس قبائل میں ان کا خون رائیگاں ہو جائے گا، بنو ہاشم ان جوانوں میں سے کسی ایک کو بھی قتل نہیں کر سکیں گے اس وقت وہ دیت قبول کرنے پر مجبور ہو جائیں گے اور تمہاری جان اس سے چھوٹ جائے گی۔ اس پر وہ کہنے لگے: یہ رائے بڑی وزنی ہے۔ اور پھر ان کا اس بات پر اتفاق ہوگیا۔[2] انہوں نے یہ تدبیر کی مگر اللہ کی تدبیر اس سے بہتر ثابت ہوئی، وہ اس طرح کہ مشرکین مکہ اپنے اس مذموم ارادہ میں کامیاب نہ ہو سکے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان دس سورماؤں کے سروں میں خاک ڈالتے ہوئے بحفاظت اپنے گھر سے باہر نکل گئے۔ اس وقت آپ اس آیت کی تلاوت فرما رہے تھے۔
[1] تفسیر در منثور: ۳/ ۳۲۴۔ [2] ملاحظہ فرمائیں : سیرت ابن ہشام: ۱/ ۴۲۷۔ تفسیر در منثور: ۳/ ۳۲۴۔