کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 223
نہ صبر کے طور پر اور نہ ہی تسمیہ کے طور پر، اسی طرح یوں بھی نہیں کہا جاسکتا کہ: اللہ کائد (مکر کرنے والا) ہے۔ نہ خبر کے انداز میں اور نہ ہی تسمیہ کے انداز میں ۔ اور یہ اس لیے کہ جیسا کہ ہم نے ابھی بنایا یہ معنی ایک حالت میں لائق ستائش ہوتا ہے اور دوسری حالت میں لائق مذمت، اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی علی الاطلاق موصوف کرنا درست نہیں ہے۔رہا یہ ارشاد باری تعالیٰ: ﴿وَ اللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ﴾ (آل عمران:۵۴)’’اور اللہ خفیہ تدبیر کرنے والوں سے بہت بہتر ہے۔‘‘تو یہ وصف کمال ہے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے: ’’امکر الماکرین‘‘ نہیں بلکہ ﴿خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ﴾فرمایا۔ یعنی اس کا مکر صرف خیر ہے۔ لہٰذا اسے ﴿خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ﴾ کہنا درست ہے، اسی طرح مقابلہ کے موقع پر بھی اسے مکر سے موصوف کرتے ہوئے یوں کہنا درست ہے: ’’اللہ تعالیٰ مکر کرنے والوں کے ساتھ مکر کرتا ہے۔‘‘ مکر کے بارے میں دوسری آیت: ﴿وَ مَکَرُوْا وَ مَکَرَ اللّٰہُ وَ اللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَ﴾ (آل عمران:۵۴)’’انہوں نے خفیہ تدبیر کی اور اللہ نے بھی خفیہ تدبیر کی اور اللہ تعالیٰ خفیہ تدبیر کرنے والوں سے بہتر ہے۔‘‘ شرح:…یہ آیت حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کے بارے میں اتری، جنہیں قتل کرنے کی غرض سے یہودیوں نے خفیہ تدابیر کیں ۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ان کے مکر کو ناکام بتاتے ہوئے انہیں زندہ اوپر اٹھالیا، اور ان میں سے کسی ایک پر ان کی مشابہت ڈال دی اور یہ وہ شخص تھا جس نے انہیں قتل کرنے کی سازش میں بنیادی کردار ادا کیا تھا، جب یہ شخص حضرت عیسیٰ کو قتل کرنے کے ارادے سے ان کے پاس آیا تو اس وقت انہیں اوپر اٹھا لیا گیا۔ اتنی دیر میں دوسرے لوگ بھی اندر آگئے، انہوں نے کہا تو عیسیٰ ہے۔ اس نے کہا کہ میں عیسیٰ نہیں ہوں ۔ مگر انہوں نے اصرار کرتے ہوئے کہا کہ تو ہی عیسیٰ ہے،اور یہ اس لیے کہ اس پر عیسیٰ بن مریم کی مشابہت ڈال دی گئی تھی، چنانچہ انہوں نے اس آدمی کو قتل کر ڈالا جو عیسیٰ ابن مریم کو قتل کرنے کا ارادہ لے کر یہاں آیا تھا، اور اس طرح اس کا مکر خود اس کے لیے ہی جان لیوا ثابت ہوا، جس پر اللہ نے فرمایا: ﴿وَ مَکَرُوْا وَ مَکَرَ اللّٰہُ وَ اللّٰہُ خَیْرُ الْمٰکِرِیْنَo﴾ (آل عمران:۵۴) ’’انہوں نے خفیہ تدبیر کی اور اس نے بھی خفیہ تدبیر کی اور اللہ سب خفیہ تدبیر کرنے والوں سے بہتر ہے۔‘‘ مکر کے بارے میں ہی تیسری آیت:﴿وَمَکَرُوْا مَکْرًا وَّمَکَرْنَا مَکْرًا وَّہُمْ لَا یَشْعُرُوْنَo﴾ (النمل:۵۰)’’اور انہوں نے خفیہ تدبیر کی اور ہم نے بھی خفیہ تدبیر کی اور وہ شعور نہیں رکھتے۔‘‘ شرح:…حضرت صالح علیہ السلام جس بستی میں رہ کر لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتے تھے اس میں نو بد نصیب آدمی ایسے بھی تھے جو ایک دوسرے سے کہنے لگے:﴿تَقَاسَمُوْا بِاللّٰہِ لَنُبَیِّتَنَّہُ وَاَہْلَہُ﴾ (النمل:۴۹)’’تم اللہ کی قسمیں اٹھاؤ کہ ہم اس (صالح) پر اور اس کے ساتھیوں پر ضرور شب خون ماریں گے۔‘‘ ﴿ثُمَّ لَنَقُوْلَنَّ لِوَلِیِّہِ مَا شَہِدْنَا مَہْلِکَ اَہْلِہٖ وَاِِنَّا لَصَادِقُوْنَo﴾ (النمل:۴۹) ’’اور پھر اس کے وارثوں سے کہہ دیں گے کہ ہم اس کے ساتھیوں کی ہلاکت کے وقت موجود ہی نہیں تھے اور یقینا ہم اپنی بات میں سچے ہیں ۔