کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 221
(الشعراء: ۲۱۸۔ ۲۲۰) ’’جو آپ کو جب آپ کھڑے ہوتے ہیں اور نمازیوں کے ساتھ آپ کی نشست وبرخاست کو دیکھتا رہتا ہے۔‘‘
شرح:…اس آیت سے قبل کی آیت کے الفاظ ہیں : ﴿وَتَوَکَّلْ عَلَی الْعَزِیْزِ الرَّحِیْمِo﴾ (الشعراء: ۲۱۷) ’’آپ بھروسا رکھیں بڑے قوت والے بڑے رحم والے پر۔‘‘اس جگہ رؤیت سے مراد رؤیت بصر ہے۔ اس لیے کہ ارشاد ربانی ﴿الَّذِیْ یَرَاکَ حِیْنَ تَقُوْمُo﴾ کا علم کے معنی میں ہونا صحیح نہیں ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کو آپ کا علم آپ کے اٹھتے وقت بھی ہوتا ہے اور اس سے قبل بھی۔ نیز ﴿وَتَقَلُّبَکَ فِی السَّاجِدِیْنَo﴾ سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ اس جگہ رؤیت سے مراد رؤیت بصر ہے۔
آیت کا معنی ہے: اللہ تعالیٰ آپ کو اس وقت بھی دیکھتا ہے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکیلے نماز کے لیے اٹھتے ہیں اور اس وقت بھی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم باجماعت نماز میں نمازیوں کے ساتھ نشست وبرخاست کرتے ہیں ۔
اِِنَّہٗ ہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ یعنی جب آپ اٹھتے ہیں تو اس وقت جو اللہ آپ کو دیکھتا ہے وہ سننے والا جاننے والا ہے۔
اس جگہ ضمیر فصل (ہو) حصر کا فائدہ دے رہی ہے، تو کیا یہ اس معنی میں حصر حقیقی ہے کہ محصور فیہ کے علاوہ محصور کا وجود ہی نہیں ہے یا یہ حصر اضافی ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ایک اعتبار سے حصر حقیقی ہے، اور ایک اعتبار سے حصر اضافی، اس لیے کہ اس جگہ (السمیع) سے مراد ایسا وجود ہے جس کی سماعت کامل اور ہر مسموع کی مدرک ہو۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے، اس اعتبار سے یہ حصر حقیقی ہے، جہاں تک مطلق سمع کا تعلق ہے تو وہ انسان کو بھی حاصل ہے، قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
﴿اِِنَّا خَلَقْنَا الْاِِنسَانَ مِنْ نُّطْفَۃٍ اَمْشَاجٍ نَّبْتَلِیْہِ فَجَعَلْنَاہُ سَمِیْعًا بَصِیْرًاo﴾ (الدھر: ۲)
’’یقینا ہم نے انسان کو ملے جلے نطفے سے پیدا فرمایا تاکہ اسے آزمائیں ، پھر ہم نے اسے خوب سننے والا خوب دیکھنے والا بنایا۔‘‘
اسی طرح انسان بھی (علم)ہے۔ قرآن کہتا ہے:
﴿وَبَشَّرُوْہُ بِغُلٰمٍ عَلِیْمٍo﴾ (الذاریات: ۲۸)’’اور انہوں نے اسے علم والے بچے کی بشارت سنائی۔‘‘
لیکن علم کامل اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے۔آیت میں سمع اور رؤیت کو ایک ساتھ جمع کر دیا گیا ہے۔
ساتویں آیت: ﴿وَ قُلِ اعْمَلُوْا فَسَیَرَی اللّٰہُ عَمَلَکُمْ وَ رَسُوْلُہٗ وَالْمُؤْمِنُوْنَ﴾ (التوبۃ: ۱۰۵) ’’اور کہہ دو کہ عمل کرتے رہو، عنقریب دیکھ لے گا اللہ تمہارے عمل کو اور اس کے رسول اور دوسرے مومن بھی۔‘‘
شرح:…فَسَیَرَی اللّٰہُ عَمَلَکُمْ وَرَسُوْلُہٗ کے ضمن میں ابن کثیر رحمہ اللہ اور دوسرے مفسرین فرماتے ہیں : مجاہد کا قول ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی کرنے والوں کے لیے اس کی وعید ہے کہ عنقریب ان کے اعمال اس کے سامنے پیش کیے جائیں گے اور جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی دیکھ لیں گے اور اہل ایمان بھی۔ اور یہ سب کچھ قیامت کے دن