کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 22
﴿وَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُوْلِہٖ﴾ (المنافقون:۸)’’عزت اللہ اور اس کے رسول( صلی اللہ علیہ وسلم )کے لیے ہے۔‘‘
اسی طرح عبادت کا اطلاق مفعول یعنی متعبدبہپر بھی ہوتا ہے، اس معنی میں شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس کی تعریف یوں کرتے ہیں :
’’عبادت ان جملہ امور کے لیے اسم جامع ہے جنہیں اللہ تعالیٰ پسند کرتا اور ان سے محبت کرتا ہو وہ اقوال ہوں یا ظاہری اعمال یا باطنی ‘‘[1]
جن اقوال و اعمال کے ساتھ ہم اللہ تعالی کی عبادت کرتے ہیں ان کے ساتھ صرف اسی ایک کی ہی عبادت کرنا واجب ہے، مثلاً نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، دعاء نذر، خشیت، توکل اور دیگر جمیع عبادات۔
اگر آپ یہ کہیں کہ اس بات کی کیا دلیل ہے کہ اللہ رب العزت الوہیت کے ساتھ متفرد ہے؟ تو ہم بتانا چاہیں گے کہ اس کے دلائل بہت زیادہ ہیں ، ان میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں ۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
﴿وَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِیْٓ اِلَیْہِ اَنَّہٗ لَآاِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ﴾ (الانبیاء:۲۵)
’’اور ہم نے آپ سے قبل کوئی ایسا رسول نہیں بھیجا جس کی طرف ہم نے یہ وحی نہ کی ہو کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں سو میری ہی عبادت کرو۔‘‘
دوسری جگہ آتا ہے:
﴿شَہِدَ اللّٰہُ اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ وَ الْمَلٰٓئِکَۃُ وَ اُولُواالْعِلْمِ﴾ (آل عمران:۱۸)
’’اللہ گواہ ہے کہ بیشک اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتے اور علم والے بھی گواہ ہیں ۔‘‘
پھر اس شہادت کی توثیق کرتے ہوئے فرمایا:
﴿لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ﴾ (آل عمران:۱۸)
’’اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ، وہ غالب حکمت والا ہے۔‘‘
یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ۔ میری بھی یہی گواہی ہے اور تمہاری بھی۔ اگر یہ کہا جائے کہ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر خود اللہ تعالیٰ نے اپنے سوا دیگر معبودوں کا اثبات کیا ہے؟ مثلاً: ﴿وَ لَا تَدْعُ مَعَ اللّٰہِ اِلٰہًا اٰخَرَ ﴾ (القصص:۸۸) ’’اور اللہ کے سوا کسی دوسرے کو معبود مت پکاریں ۔‘‘
﴿وَمَنْ یَّدْعُ مَعَ اللّٰہِ اِِلٰہًا آخَرَ لَا بُرْہَانَ لَہٗ بِہٖ﴾ (المومنون:۱۱۷)
’’جو شخص اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو پکارتا ہے جس کی اس کے پاس کوئی دلیل نہیں ۔‘‘
﴿فَمَآ اَغْنَتْ عَنْہُمْ اٰلِہَتُہُمُ الَّتِیْ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مِنْ شَیْئٍ﴾ (ھود:۱۰۱)
’’پس ان کے وہ معبود ان کے کچھ بھی کام نہ آئے جنہیں وہ پکارا کرتے تھے۔‘‘
[1] رسالۃ العبودیۃ : ۱۰/۱۴۹۔