کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 219
دوسری آیت: ﴿لَقَدْ سَمِعَ اللّٰہُ قَوْلَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللّٰہَ فَقِیْرٌ وَّ نَحْنُ اَغْنِیَآئُ﴾ (آل عمران: ۱۸۱) ’’یقینا اللہ نے ان لوگوں کی بات سن لی جنہوں نے یہ کہا کہ بے شک اللہ فقیر اور ہم غنی ہیں ۔‘‘
شرح:…[لَقَدْ] … جملہ مؤکدہ باللام (قد) قسم مقدر ہے، اور تقدیری عبارت اس طرح ہے، واللہ، اس طرح یہ جمع تین مؤکدات کے ساتھ موکدہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کو فقیر اور اپنے آپ کو غنی کہنے والے ملعون یہودی تھے۔ انہوں نے اسے معیوب قرار دیتے ہوئے فقیر کہنے کی ہرزہ سرائی کی۔
جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:
﴿مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَہٗ لَہٗٓ اَضْعَافًا کَثِیْرَۃً﴾ (البقرۃ: ۲۴۵)
’’وہ کون ہے جو اللہ تعالیٰ کو قرض حسنہ دے، پھر اللہ اسے بڑھا کر اس کے لیے کئی گنا کر دے۔‘‘
تو وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگے: محمد! تمہارا رب فقیر ہوگیا ہے، اب وہ ہم سے قرضہ مانگنے لگا ہے۔
تیسری آیت: ﴿اَمْ یَحْسَبُوْنَ اَنَّا لَا نَسْمَعُ سِرَّہُمْ وَنَجْوَاہُمْ بَلٰی وَرُسُلُنَا لَدَیْہِمْ یَکْتُبُوْنَo﴾ (الزخرف: ۸۰) ’’کیا ان کا یہ خیال ہے کہ ہم ان کی مخفی باتوں اور سرگوشیوں کو نہیں سنتے ہیں ، کیوں نہیں ، ان کے پاس ہمارے فرشتے لکھتے جاتے ہیں ۔‘‘
شرح:…[اَمْ]… اس جیسی ترکیب میں عربی زبان کے علماء کہتے ہیں کہ یہ معنی (بل) اور ہمزہ کو متضمن ہے، یعنی: (اَمْ یَحْسَبُوْنَ) میں اضراب بھی ہے، اور استفہام بھی، یعنی: بل ایحسبون أنا لا نسمع سرہم ونجواہم۔
السّرّ: راز۔ ساتھی کے ساتھ خفیہ طور پر کی گئی بات۔جسے اس کے علاوہ کوئی دوسرا نہ سکے۔
نجویٰ: سرگوشی۔ یہ راز سے قدرے اونچی آواز میں ہوتی ہے، جسے چند لوگ کرتے اور اس پر تبادلہ خیال کرتے ہیں ۔
نداء: ساتھی کے ساتھ بلند آواز میں کی گئی بات۔ اس طرح کہ وہ ایک دوسرے سے دور ہوں ۔
چونکہ یہ لوگ گناہوں کی باتیں مخفی طور پر کرتے اور ان کے ساتھ سرگوشیاں کیا کرتے تھے، لہٰذا اللہ تعالیٰ نے انہیں سرزنش کرتے ہوئے فرمایا: ﴿اَ یَحْسَبُوْنَ اَنَّا لَا نَسْمَعُ سِرَّہُمْ وَنَجْوَاہُمْ بَلٰی﴾
[بَلٰی]… صرف ایجاب ہے، یعنی بلی نسمع۔ ہم ضرور سنتے ہیں اور اس پر مزید یہ کہ ﴿رُسُلُنَا لَدَیْہِمْ یَکْتُبُوْنَ﴾ یعنی ان کے پاس موجود ہمارے فرشتے ان کی مخفی باتیں اور سرگوشیاں لکھتے رہتے ہیں ، اس جگہ رسل سے مراد وہ فرشتے ہیں جنہیں اولاد آدم کے اعمال لکھنے کی ذمہ داری تقویض کی گئی ہے۔ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کے اسرار ورموز اور ان کی سرگوشیاں سنتا ہے۔
چوتھی آیت: ﴿اِنَّنِیْ مَعَکُمَآ اَسْمَعُ وَ اَرٰی﴾ (طٰہٰ: ۴۶) ’’بیشک میں تمہارے ساتھ ہوں ، سنتا ہوں اور دیکھتا ہوں ۔‘‘
شرح:…خطاب موسیٰ علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام سے ہو رہا ہے، اللہ تعالیٰ ان دونوں سے فرماتا ہے:﴿اِنَّنِیْ مَعَکُمَآ اَسْمَعُ وَ اَرٰی﴾ یعنی میں تمہاری باتیں بھی سنتا ہوں اور جو باتیں تم سے کی جائیں گی انہیں بھی سنتا ہوں ۔ میں تمہیں بھی دیکھتا