کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 216
﴿فَرَدَدْنٰہُ اِلٰٓی اُمِّہٖ کَیْ تَقَرَّعَیْنُہَا وَلَا تَحْزَنَ﴾ (القصص: ۱۳)
’’پھر ہم نے اسے اس کی ماں کے پاس واپس لوٹا دیا تاکہ اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور وہ غمگین نہ ہو۔‘‘
اگرچہ موسیٰ شیر خوار بچے تھے مگر انہوں نے کسی بھی عورت کا دودھ نہ پیا، اب دودھ پلانے کے لیے اگر انہیں ان کی ماں کے پاس بھیج دیا گیا تو یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کا کمال اور اس کے وعدہ کا ایفاء تھا۔
اس لیے کہ اللہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ سے کہا تھا:
﴿فَاِذَا خِفْتِ عَلَیْہِ فَاَلْقِیْہِ فِی الْیَمِّ وَ لَا تَخَافِیْ وَ لَا تَحْزَنِیْ اِنَّا رَآدُّوْہُ اِلَیْکِ وَ جَاعِلُوْہُ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَo﴾ (القصص: ۷)
’’پھر جب تو اس پر خطرہ محسوس کرے تو اسے دریا میں پھینک دینا اور نہ خوف کھانا اور نہ غمگین ہونا، یقینا ہم اسے تیرے پاس واپس لائیں گے اور اسے رسولوں میں سے بنائیں گے۔‘‘
اپنے بیٹے پر جس ماں کی شفقت کا کوئی اندازہ بھی نہیں کر سکتا، اس سے کہا جاتا ہے کہ تو اپنے لخت جگر کو صندوق میں بند کر کے دریا میں ڈال دے۔
اگر ایمان اس خاتون کا ہم رکاب نہ ہوتا تو وہ ہرگز ہرگز اپنے بیٹے کو دریا میں نہ پھینکتی۔ اگر کسی ماں کا بیٹا صندوق میں بند ہو کر دریا میں گر جائے تو وہ اپنی جان پر کھیل کر اسے دریا سے باہر لے آئے، مگر یہ کیسی ماں ہے جو اپنے بیٹے کو اپنے ہاتھوں سے دریا میں پھینک رہی ہے؟ یہ اس کا اپنے رب پر اعتماد اور اس کے وعدہ پر بھروسا ہی ہے کہ وہ اسے خود آگے بڑھ کر دریا کی لہروں کے حوالے کر رہی ہے۔
سوال :﴿وَ لِتُصْنَعَ عَلٰی عَیْنِیْ﴾ مفرد کے ساتھ ہے، جبکہ قبل ازیں اس کا ذکر جمع کے ساتھ ہوا ہے۔ کیا یہ کیا اس کے منافی نہیں ہے؟
جواب : ہرگز منافی نہیں ہے، اس لیے کہ مفرد مضاف عام ہوتا ہے، آنکھ کے حوالے سے اللہ کے لیے جو کچھ بھی ثابت ہو، وہ اس پر مشتمل ہوگا، اس طرح مفرد اور جمع کے درمیان یا مفرد اور تثنیہ کے درمیان منافات نہیں رہتی۔
سوال : تثنیہ اور جمع کے درمیان تطبیق کی کیا صورت ہوگی؟
جواب : اگر تو جمع کا اطلاق کم از کم دو پر ہوتا ہے تو اس صورت میں منافات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، لیکن اگر اس کا اطلاق کم از کم تین پر ہوتا ہو تو پھر اس جمع سے مراد تین نہیں بلکہ تعظیم کا اظہار اور جمع کی ضمیر اور مضاف الیہ کے درمیان تناسب قائم رکھنا ہوگا۔
اہل تحریف وتعطیل آنکھ کی تفسیر رؤیت بدون آنکھ کے ساتھ کرتے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ ﴿بِاَعْیُنِنَا﴾ کا مطلب ہے، ہماری رؤیت، مگر آنکھ کا کوئی وجود نہیں ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کے لیے اس کا اثبات ممکن ہی نہیں ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ آنکھ جسم کا ایک جزء ہے، اگر ہم اللہ کے لیے آنکھ ثابت کریں گے تو اس کا معنی یہ ہوگا کہ ہم اس کے لیے تجزیہ اور جسم