کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 214
سوال : اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا: ﴿عَلٰی ذَاتِ اَلْوَاحٍ وَّدُسُرٍo﴾ مگر یہ کیوں نہیں فرمایا: وحملنہ علی السفینۃ یا حملنہ علی فلک، کہ ہم نے اسے کشتی پر سوار کیا…؟
جواب : پہلی تعبیر اختیار کرنے اور دوسری ترک کرنے کی تین وجوہات ہیں ۔
پہلی وجہ: آیات کے کلمات اور ان کے فواصل میں تناسب کا خیال رکھنا۔ اگر اللہ یوں فرمایا: وحملنہ علی فلک، تو یہ آیت اپنے ماقبل اور مابعد کی آیت سے ہم آہنگ نہ ہوتی۔ اسی طرح ’’علی سفینۃ‘‘ کہنے سے بھی یہی صورت حال پیدا ہوتی۔ چونکہ آیات کے کلمات اور ان کے فواصل میں تناسب قائم رکھنا مقصود تھا، لہٰذا فرمایا گیا:﴿عَلٰی ذَاتِ اَلْوَاحٍ وَّدُسُرٍo﴾
دوسری وجہ: تاکہ لوگوں کو کشتیاں بنانے کا پتا چل جائے اور اس بات کی وضاحت ہو جائے کہ حضرت نوح کی کشتی لکڑی کے تختوں اور کیلوں سے تیار کی گئی تھی۔ اسی لیے اللہ نے فرمایا:
﴿وَلَقَدْ تَرَکْنَاہَا اٰیَۃً فَہَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍo﴾ (القمر: ۱۵)
’’اور یقینا ہم نے اسے ایک نشان عبرت کے طور پر چھوڑا تو کیا ہے کوئی عبرت حاصل کرنے والا۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے کشتی سازی کا علم مخلوق کے لیے نشان عبرت کے طورپر باقی رکھا۔
تیسری وجہ: اس سے اس کی مضبوطی کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے اور وہ اس طرح کہ یہ کشتی لکڑی کے تختوں اور کیلوں سے تیار کردہ تھی۔ اس جگہ تنکیر تعظیم کے لیے ہے۔ اس طرح اس کے مواد پر ترکیز کی گئی۔ موصوف سے ہٹ کر وصف کے ذکر کرنے کی نظیر یہ ارشاد باری ہے:
﴿اَنِ اعْمَلْ سٰبِغٰتٍ﴾ (سباء: ۱۱) ’’یہ کہ کشادہ زرہیں بنائیں ۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے ’’دروعا سابغات‘‘ نہیں فرمایا، جس سے مقصود ان زرہوں کے فائدہ کو اہمیت دینا ہے۔ اور وہ یہ کہ وہ کھلی ہوں اور پوری ہوں ۔
تَجْرِیْ بِاَعْیُنِنَا اس کے بارے میں بھی وہی کچھ کہا جائے گا جو ہم ﴿فَاِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا ﴾ کے ضمن میں کہہ آئے ہیں ۔
تیسری آیت: ﴿وَ اَلْقَیْتُ عَلَیْکَ مَحَبَّۃً مِّنِّیْ وَ لِتُصْنَعَ عَلٰی عَیْنِیْ﴾ (طٰہٰ: ۳۹) ’’اور میں نے تجھ پر اپنی طرف سے محبت ڈال دی تاکہ تیری پرورش میری آنکھوں کے سامنے کی جائے۔‘‘
شرح: …خطاب موسیٰ علیہ السلام سے ہو رہا ہے۔
﴿وَ اَلْقَیْتُ عَلَیْکَ مَحَبَّۃً مِّنِّیْ﴾ مفسرین کا اس کے معنی میں اختلاف ہے۔
پہلا قول: اس کا معنی ہے، میں نے تجھ سے محبت کی۔
دوسرا قول: اس کا معنی ہے، میں نے تجھ پر لوگوں کی محبت ڈال دی، یعنی جو کوئی بھی تجھے دیکھے گا تجھ سے محبت کرنے لگے گا۔ اور اس کا شاہد یہ ہے کہ فرعون کی بیوی انہیں دیکھتے ہی ان سے محبت کرنے لگی اور پھر بول اٹھی: ﴿لَا تَقْتُلُوْہُ عَسٰٓی اَنْ یَّنْفَعَنَآ اَوْ نَتَّخِذَہٗ وَلَدًا﴾ (القصص: ۹) ’’اسے قتل مت کرنا شاید یہ ہمیں فائدہ دے یا ہم اسے بیٹا بنا لیں ۔‘‘