کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 213
لوگوں کے اس دعویٰ کا بطلان ہوتا ہے کہ ظاہر قرآن اس امر کا متقاضی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی آنکھ میں ہیں ۔
دوسری آیت: ﴿وَحَمَلْنٰہُ عَلٰی ذَاتِ اَلْوَاحٍ وَّدُسُرٍo تَجْرِیْ بِاَعْیُنِنَا جَزَآئً لِمَنْ کَانَ کُفِرَ﴾ (القمر: ۱۳۔ ۱۴) ’’اور ہم نے اسے تختوں اور میخوں والی کشتی میں سوار کر لیا، وہ ہماری آنکھوں کے سامنے چل رہی تھی، یہ اس کے انتقام کے لیے تھا جس کا انکار کیا گیا تھا۔‘‘
شرح: …[وَحَمَلْنٰہُ]… ضمیر نوح علیہ السلام کی طرف لوٹتی ہے۔
[وَحَمَلْنَاہُ عَلٰی ذَاتِ اَلْوَاحٍ وَّدُسُرٍ]… یعنی ہم نے نوح کو ایسی کشتی میں سوار کر لیا جو تختوں اور میخوں والی تھی۔ نوح علیہ السلام کشتی تیار کر رہے تھے، اس دوران جب ان کی قوم کے لوگ ان کے پاس سے گزرتے تو وہ آپ کا مذاق اڑاتے۔ اس پر آپ ان سے فرماتے:
﴿اِنْ تَسْخَرُوْا مِنَّا فَاِنَّا نَسْخَرُ مِنْکُمْ کَمَا تَسْخَرُوْنَ﴾ (ہود:۳۸)
’’اگر تم ہم سے تمسخر کرتے ہو تو یقینا ہم بھی تم سے تمسخر کریں گے، جیسے تم تمسخر کر رہے ہو۔‘‘
جناب نوح علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی نگرانی میں کشتی تیار کرنے لگے، اور اس نے ان سے فرمایا: ﴿وَ اصْنَعِ الْفُلْکَ بِاَعْیُنِنَا وَ وَحْیِنَا﴾ (ہود: ۳۷) ’’ہمارے حکم کے مطابق اور ہماری آنکھوں کے سامنے ایک کشتی بناؤ۔‘‘ وہ کشتی بنا رہے تھے اور اللہ تعالیٰ ان کی طرف دیکھ رہا تھا اور اسے بنانے کا طریقہ انہیں الہام کر رہا تھا۔
جب کشتی تیار ہوگئی تو اللہ تعالیٰ نے اس کے اوصاف بیان کرتے ہوئے فرمایا:
﴿ذَاتِ اَلْوَاحٍ وَّدُسُرٍ﴾ کہ وہ تختوں اور کیلوں والی تھی۔ ﴿ذَاتِ﴾ صاحبۃ کے معنی میں ہے۔ (الالواح) تختیاں ۔ (الدسر) وہ اشیاء جن کے ساتھ لکڑیاں جوڑی جاتی ہیں ، مثلاً کیل اور رسیاں وغیرہا، اکثر مفسرین کے نزدیک اس سے مراد کیل ہیں ۔
[تَجْرِیْ بِاَعْیُنِنَا]… یعنی تختوں اور کیلوں سے تیار کردہ کشتی اللہ تعالیٰ کی آنکھوں کے سامنے چل رہی تھی۔ اس جگہ اعین سے صرف دو آنکھیں مراد ہیں ۔ اور اس کے رب تعالیٰ کی آنکھوں کے سامنے چلنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ اس جگہ (باء) مصاحبت کے لیے ہے۔ کشتی اس پانی پر تیر رہی تھی جو آسمان سے برسا اور زمین سے بہہ نکلا۔ اور یہ اس لیے ہوا کہ نوح علیہ السلام نے اپنے رب سے دعا کی تھی: ﴿اَنِّی مَغْلُوْبٌ فَانْتَصِرْ﴾ (القمر: ۱۰) ’’بیشک میں مغلوب ہوں ، میری مدد فرما۔‘‘
اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿فَفَتَحْنَا اَبْوَابَ السَّمَآئِ بِمَائٍ مُّنْہَمِرٍo وَفَجَّرْنَا الْاَرْضَ عُیُوْنًا﴾ (القمر: ۱۱۔۱۲)
’’تو پھر ہم نے تیز بارش کے لیے آسمان کے دروازے کھول دیئے اور زمین سے چشمے جاری کر دیئے۔‘‘
یہ کشتی اللہ تعالیٰ کی آنکھوں کے سامنے رواں دواں تھی۔