کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 20
اکیلا ہی خالق ہے۔اگر کوئی یہ کہے کہ آپ اپنے اس موقف کو کہ اللہ تعالیٰ منفرد بالملک ہیں ۔ ان قرآنی آیات سے کس طرح ہم آہنگ کریں گے جن میں مخلوق کے لیے ملک کو ثابت کیا گیا ہے؟ مثلاً یہ ارشاد باری تعالیٰ: ﴿اَوْ مَا مَلَکْتُمْ مَفَاتِحَہُo﴾ (النور:۶۱)’’یا جس کی چابیوں کے تم مالک ہو۔‘‘……نیز ﴿اِِلَّا عَلٰی اَزْوَاجِہِمْ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُہُمْ﴾ (المومنون:۶) ’’بجز اپنی بیویوں کے یا جن کے مالک بنے ہیں ان کے دائیں ہاتھ۔‘‘ اس کا جواب یہ ہے کہ ان میں ہم آہنگی دو طرح سے پیدا کی جاسکتی ہے: اولاً:…کسی چیز کا انسان کی ملکیت میں ہونا عام اور ہمہ گیر نہیں ہوتا، اس لیے کہ میں اپنی چیزوں کا تو مالک ہوں مگر تمہاری چیزوں کا نہیں ہوں ، جبکہ اللہ کے ملک میں ہر شے ہے، اللہ تعالیٰ کا ملک زیادہ ہمہ گیر بھی ہے اور زیادہ وسیع بھی، اور اسی کا ملک ہی ملک تام ہے۔ ثانیاً:…کسی چیز پر میری ملکیت ایسی حقیقی ملکیت نہیں ہے کہ میں اس میں اپنی مرضی سے جس طرح چاہوں تصرف کر سکوں ، میں اس میں اسی طرح تصرف کرنے کا مجاز ہوں جس طرح شرع نے اس کا حکم دیا اور مالک حقیقی نے اس کی اجازت دی، اگر میں ایک روپیہ دو روپوں کے بدلے میں بیچوں تو میں اس کا مالک نہیں ہوں اور نہ ہی میرے لیے یہ حلال ہے۔ اس کا یہ مطلب ہوا کہ میری ملکیت ناقص ہے، نیز میں قدری حوالے سے بھی اس کے بارے میں کسی چیز کا مالک نہیں ہوں ، اس لیے کہ تصرف کا اختیار اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے۔ میرے حکم پر میرا بیمار غلام نہ تو تندرست ہوگا اور نہ ہی تندرست و توانا غلام میرے کہنے پر بیمار پڑے گا۔ جبکہ اگر اللہ تعالیٰ بیمار کو تندرست ہونے یا تندرست کو بیمار ہونے کا حکم دے تو ان کے لیے اس کے حکم کی تعمیل لازمی ہوگی ۔یہ اس لیے کہ حقیقی تصرف اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے نہ کہ میرے اختیار میں ۔ میں تصرف و خلق کا نہ تو شرعاً مالک ہوں اور نہ ہی قدراً، میری ملکیت تصرف کے اعتبار سے بھی ادھوری ہے اور شمول و عموم کے اعتبار سے بھی، یوں ہمارے سامنے یہ امر عیاں ہو جاتا ہے کہ اللہ کس طرح ہر شے کا اکیلا ہی مالک ہے۔ جہاں تک تدبیر کا تعلق ہے تو ہمیں انسان کی تد بیر سے انکار نہیں ہے لیکن اس کی یہ تد بیر بھی اسی طرح ادھوری ہے جس طرح مذکورۃ الصدر وجوہ کی بناء پر اس کی ملکیت ادھوری اور غیر مکمل ہے، میں ہر چیز میں تدبیر کا مالک نہیں ہوں ، میں صرف انہی چیزوں میں تدبیر کا حق رکھتا ہوں جو میرے زیر ملکیت ہوں گی۔ اس سے یہ حقیقت نکھر کر سامنے آجاتی ہے کہ ہمارا یہ کہنا کہ: ’’ اللہ تعالیٰ خلق، ملک اور تد بیر میں منفرد ہے‘‘ کلیہ عامہ و مطلقہ ہے، اس سے کوئی بھی چیز مستثنیٰ نہیں ہے۔ مذکورہ بالاسطور میں ہم نے جو کچھ بھی عرض کیا ہے وہ اس حوالے سے اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت شدہ امور سے متعارض نہیں ہے۔ ۲۔ توحید الوہیت:… اس سے مراد یہ ہے کہ عبادت میں اللہ تعالی کو یکتا مانا جائے اور اس میں کسی کو اس کے ساتھ شریک نہ ٹھہرایا جائے ۔ بایں طور کہ آپ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں ، نہ کسی فرشتے کی اور نہ کسی نبی کی، نہ کسی ولی کی اور نہ کسی شیخ کی، نہ باپ کی اور نہ ہی ماں کی، صرف اللہ کی عبادت کی جائے، الوہیت و تعبد میں اسے اکیلا اور