کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 191
﴿وَ اِنَّآ اَوْ اِیَّاکُمْ لَعَلٰی ہُدًی اَوْ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍo﴾ (سباء: ۲۴) ’’اور یقینا ہم یا تم ہدایت پر ہیں یا پھر کھلی گمراہی میں ہیں ۔‘‘ اگر کوئی یہ کہے کہ نص کو باطل قرار دینے والی چیز ہی حق ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ نص باطل قرار پائے گی جبکہ نص کا بطلان امر مستحیل ہے اور اگر وہ یہ کہے کہ نص ہی حق ہے تو پھر یہ دعویٰ بھی باطل ٹھہرے گا اور قیاس بھی۔ پھر ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ آخر اس بات میں کیا مانع ہے کہ اللہ اپنے شایان شان کیفیت میں بہ نفس نفیس تشریف آئے؟ اس کے جواب میں اگر وہ یہ کہیں کہ اس سے تمثیل لازم آتی ہے۔ تو ہم کہیں گے کہ تمہارا یہ کہنا غلط ہے، اس لیے کہ آنے آنے میں فرق ہوتا ہے، یہاں تک کہ مخلوق کی نسبت سے بھی اس میں اختلاف ہوتا ہے، لاٹھی کے سہارے بڑی مشکل سے چلنے والا، صحت مند اور چست آدمی کی طرح نہیں چل سکتا، اسی طرح شہر کے کسی بڑے آدمی یا حکمران شخص کی آمد اس شخص کی آمد سے یکسر مختلف ہوتی ہے جس کی کسی حوالے سے بھی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ سوال : معطلہ قرآنی آیت ﴿ وَجَآئَ رَبُّکَ﴾ ’’تیرار ب آئے گا۔‘‘ اور اس جیسی دیگر آیات کے بارے میں کیا کہتے ہیں ؟ جواب : وہ کہتے ہیں کہ اس کا معنی ہے: تیرے رب کا حکم آئے گا، اور یہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے: ﴿اَتٰٓی اَمْرُاللّٰہِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْہُ﴾ (النحل:۱)’’اللہ کا حکم آیا ہی آیا، تم اس کی جلدی نہ مچاؤ۔‘‘ اس حوالے سے جس بھی اتیان (آمد) کو اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کی طرف منسوب کیا ہے اس کی اس آیت کے ساتھ تفسیر کرنا واجب ہے۔ اس کے جواب میں یہ کہا جائے گا کہ جس دلیل سے آپ نے استدلال کیا ہے، وہ آپ کے حق میں نہیں بلکہ آپ کے خلاف جاتی ہے۔ اگر دوسری آیات میں اللہ تعالیٰ کی مراد اس کے حکم کا اترنا ہے تو پھر (امرہ) کہنے میں کون سا مانع تھا؟ جب اس نے امر کا ارادہ کیا تو تعبیر بھی یہی اختیار فرمائی، اور جب اس کا ارادہ نہ کیا تو یہ تعبیر اختیار نہ فرمائی۔ امر واقع یہ ہے کہ یہ دلیل آپ کے خلاف جاتی ہے۔ اس لیے کہ دوسری آیات میں اجمال نہیں ہے کہ اس کی اس آیت کے ساتھ تفصیل بیان کی جائے۔ ان کا مفہوم ومعنی بالکل واضح ہے، جبکہ بعض آیات تو ایسی تقسیم پر مشتمل ہیں جو کہ مجیئی امر کے ارادہ سے مانع ہیں : مثلاً: ﴿ہَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ تَاْتِیَہُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ اَوْ یَاْتِیَ رَبُّکَ﴾ (الانعام: ۱۵۸) ’’وہ نہیں انتظار کرتے مگر اس کا کہ ان کے پاس فرشتے آجائیں یا تیرا رب خود آجائے۔‘‘ کیا اس جیسی تقسیم میں کسی کے لیے یہ کہنا درست ہوگا کہ رب کے آنے سے مراد اس کے حکم کا آنا ہے؟ سوال : اگر یہ صورت حال ہے تو پھر آپ اس آیت کے بارے میں کیا کہیں گے: ﴿فَعَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّاْتِیَ بِالْفَتْحِ اَوْ اَمْرٍ مِّنْ عَنْدِہٖ﴾ (المائدۃ: ۵۲) ’’ہو سکتا ہے کہ اللہ فتح لے آئے یا کوئی حکم اپنے پاس سے۔‘‘