کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 19
اسی طرح مصورین کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’ان سے کہا جائے گا کہ جسے تم نے پیدا کیا اسے زندہ کرو۔‘‘[1] حدیث قدسی میں آپ کا ارشاد ہے : ’’اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو میری طرح پیدا کرنا چاہے۔‘‘[2] ان نصوص اور اس قول کے درمیان کہ ’’اللہ تعالیٰ منفرد بالخلق ہے‘‘ تطبیق کی کیا صورت ہوگی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ خلق سے مراد کسی چیز کو عدم سے وجود میں لانا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہے، کسی چیز کو ایک صورت سے دوسری صورت میں منتقل کرنا حقیقتاً خلق نہیں ہے، اسے صرف تکوین کے اعتبار سے خلق کا نام دیا گیا ہے، فی الواقع وہ خلق تام نہیں ہے۔مثلاً جب بڑھئی لکڑی کا دروازہ بنائے گا تو کہا جائے گا کہ اس نے دروازہ خلق کیا، مگر اس صنعت کا مادہ اللہ تعالیٰ کا تخلیق کردہ ہے، لوگ جس قدر بھی مہارت حاصل کر لیں وہ سب مل کر بھی پیلو کے درخت کی ایک ٹہنی بھی پیدا نہیں کر سکتے، کسی ذرہ بھر چیز کی تخلیق نہیں کرسکتے، ایک مکھی تک نہیں بنا سکتے۔ ہم آپ کی توجہ اس ارشاد ربانی کی طرف مبذول کرانا چاہیں گے: ﴿یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَنْ یَّخْلُقُوْا ذُبَابًا وَّ لَوِ اجْتَمَعُوْا لَہٗ وَ اِنْ یَّسْلُبْہُمُ الذُّبَابُ شَیْئًا لَّا یَسْتَنْقِذُوْہُ مِنْہُ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَ الْمَطْلُوْبُo﴾ (الحج:۷۳) ’’اے لوگو! ایک مثال بیان کی جاتی ہے اسے غور سے سنو، بے شک جن لوگوں کو تم اس کے سوا پکارتے ہو وہ ایک مکھی تک بھی تو پیدا نہیں کر سکتے چاہے وہ سب ہی اس غرض کے لیے جمع ہو جائیں ، اور اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین کر لے جائے تو وہ اس سے چھڑا تک نہیں سکتے، کمزور ہے ایسا طالب بھی اور ایسا مطلوب بھی۔‘‘ [الَّذِیْنَ]… اسم موصول ہے جو ہر اس چیز پر مشتمل ہے جسے اللہ کے سوا پکارا جائے، وہ انسان ہو یا فرشتہ، درخت ہو یا پتھر یا کچھ اور۔ اللہ تعالیٰ کے سوا وہ جنھیں بھی پکارتے ہیں وہ ﴿لَنْ یَّخْلُقُوْا ذُبَابًا وَّلَوِاجْتَمَعُوْا لَہٗ ﴾ (الحج:۷۳)’’ایک مکھی تک بھی تو پیدا نہیں کر سکتے، چاہے وہ اس کام کے لیے سارے کے سارے ہی جمع کیوں نہ ہو جائیں ۔‘‘ اور اگر کوئی ایک یہ کام کرنا چاہے تو اس کی بے بسی تو بطریق اولیٰ ثابت ہوگی: ﴿وَ اِنْ یَّسْلُبْہُمُ الذُّبَابُ شَیْئًا لَّا یَسْتَنْقِذُوْہُ مِنْہُ﴾ (الحج:۷۳) ’’یہاں تک وہ جنھیں اللہ کے سوا پکارتے ہیں اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین کر لے جائے تو وہ اس کمزور مکھی سے وہ چیز چھڑا تک نہیں سکتے۔‘‘ اگر مکھی کسی طاقتور ترین حکمران کے جسم پر بیٹھ کر اس کی خوشبو لے اڑے یا اس کے کھانے پر بیٹھ کر اس سے کچھ لے جائے تو وہ اس سے یہ چیزیں واپس لینے کی سکت نہیں رکھتا۔ جب صورت حال یہ ہے تو پھر تسلیم کرنا پڑے گا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ
[1] صحیح بخاری:۵۹۶۱، صحیح مسلم: ۲۱۰۷۔ [2] صحیح بخاری: ۵۹۵۳، صحیح مسلم۲/۱۱۔