کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 186
بے نیاز ہے، نیز اس لیے بھی کہ اگر وہ آپ کے ساتھ جہادی سفر پر روانہ ہوتے تو اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی تصویر ہوئے: ﴿لَوْ خَرَجُوْا فِیْکُمْ مَّا زَادُوْکُمْ اِلَّا خَبَالًا وَّلَا اَوْضَعُوْا خِلٰلَکُمْ یَبْغُوْنَکُمُ الْفِتْنَۃَ﴾ (التوبۃ: ۴۷) ’’اگر وہ نکل بھی پڑتے تو وہ تم کو نہ بڑھاتے مگر صرف خرابی میں اور تمہارے درمیان فتنہ وفساد پیدا کرنے کے لیے دوڑے پھرتے۔‘‘ جب وہ غیر مخلص بھی تھے اور تھے بھی فتنہ وفساد پیدا کرنے والے، تو چونکہ اللہ تعالیٰ فساد کو بھی ناپسند کرتا ہے اور شرک کو بھی، لہٰذا اس نے ان کے اٹھنے کو ناپسند کیا، یعنی ان کے ہمتیں جہاد کے لیے نکلنے سے قاصر بنا دیں ۔ ﴿وَ قِیْلَ اقْعُدُوْامَعَ الْقٰعِدِیْنَo﴾ (التوبۃ: ۴۶) ’’اور کہا گیا کہ بیٹھنے والوں کے سات بیٹھے رہو۔‘‘ یہ بات اللہ تعالیٰ نے ان سے کونی طور پر فرمائی یا وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ دوسروں کی طرح تم بھی گھروں میں بیٹھے رہو، دیکھو فلاں بھی گھر سے نہیں نکلا اور فلاں بھی گھر میں بیٹھا ہے، وہ ان لوگوں کی طرف اشارہ کرتے جنہیں اللہ نے معذور قرار دے رکھا تھا، مثلاً مریض، اندھا اور لنگڑا۔ وہ کہتے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سفر سے واپس آئیں گے تو ہم معذرت کر لیں گے اور آپ ہمارے لیے اللہ سے معافی مانگ لیں گے۔ اور یہ کچھ کافی رہے گا۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے لیے کراہت کا اثبات کیا گیا ہے جو کہ کتاب وسنت سے بھی ثابت ہے۔ اللہ فرماتا ہے: ﴿کُلُّ ذٰلِکَ کَانَ سَیِّئُہٗ عِنْدَ رَبِّکَ مَکْرُوْہًاo﴾ (الاسراء: ۳۸) ’’اس کی یہ ساری کی ساری برائی تیرے رب کے ہاں غیر پسندیدہ ہے۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ تمہارے لیے قیل وقال کو ناپسند کرتا ہے۔‘‘[1] اللہ تعالیٰ کسی عمل کو بھی ناپسند کر سکتا ہے، جیسا کہ: ﴿وَّلٰکِنْ کَرِہَ اللّٰہُ نْبِعَاثَہُمْ﴾ (التوبۃ: ۴۶) میں ہے نیز اس قرآنی آیت میں ﴿کُلُّ ذٰلِکَ کَانَ سَیِّئُہٗ عِنْدَ رَبِّکَ مَکْرُوْہًاo﴾ (الاسراء: ۳۸)’’اس کی یہ سب کی سب برائیاں تیرے رب کے ہاں ناپسندیدہ ہیں ۔‘‘ اور کسی عامل کو بھی، جیسا کہ حدیث میں آتا ہے: ’’بے شک اللہ جب کسی بندے کو ناپسند کرتا ہے، تو جبرئیل علیہ السلام سے کہتا ہے کہ میں فلاں شخص کو ناپسند کرتا ہوں تو بھی اسے ناپسند کر۔‘‘[2] پانچویں آیت: ﴿کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ﴾ (الصف: ۳) ’’اللہ کے ہاں یہ بات بڑی ناراضی کی ہے کہ تم وہ بات کہو جس پر خود عمل نہیں کرتے۔ [کَبُرَ]… بمعنی عَظُمَ۔ [مَقْتًا]… یہ تمییز محول عن الفاعل ہے اور مقت شدید نفرت سے عبارت ہے اور (کبر) کا فاعل (أن) اور اس کا مدخول
[1] صحیح مسلم: ۲۶۳۷۔ [2] صحیح بخاری: ۶۱۴۶۔ صحیح مسلم: ۱۷۹۶۔