کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 182
جب آپ اپنے بیٹے سے یہ کہیں گے : واللہ! اگر تو بازار گیا تو میں تجھے لاٹھی سے ماروں گا مگر وہ بازار چلا گیا اور پھر جب واپس آیا تو آپ نے اسے ہاتھ سے پیٹا، جو کہ اس کے لیے ایک آسان سزا ہے، جب اللہ تعالیٰ نے قاتل کو یہ وعید سنائی پھر اسے معاف کر دیا تو اسے اس کا کرم سمجھا جائے گا۔ مگر درحقیقت یہ جواب بھی قدرے محل نظر ہے۔ زیر مطالعہ آیت کے حوالے سے پیدا ہونے والے اشکال کے یہ چھ جواب دیئے گئے ہیں ، جن میں سے اقرب الی الصواب پانچواں اور پھر چوتھا جواب ہے۔ سوال : کیا قاتل توبہ کرنے پر بھی اس وعید کا مستحق ہوگا؟ جواب : قرآنی نص کی رو سے وہ اس وعید کا مستحق نہیں ہوگا۔ ارشاد ہوتا ہے: ﴿وَالَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰہِ اِِلٰہًا آخَرَ وَلَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا یَزْنُوْنَ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ یَلْقَ اَثَامًاo یُضَاعَفْ لَہٗ الْعَذَابُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَیَخْلُدْ فِیْہِ مُہَانًاo اِِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُوْلٰٓئِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِہِمْ حَسَنَاتٍ وَّکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَحِیْمًاo﴾ (الفرقان: ۶۷۔۷۰) ’’اور وہ جو اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہیں پکارتے اور نہ ہی اس جان کو قتل کرتے ہیں جس کے قتل کرنے کو اللہ نے حرام قرار دے رکھا ہے مگر ساتھ حق کے اور نہ ہی وہ زنا کرتے ہیں اور جو کوئی ایسا کرے گا اس کو سزا سے سابقہ پڑے گا، قیامت کے دن اس کا عذاب بڑھتا چلا جائے گا، اور وہ اس میں ہمیشہ ذلیل ہو کر پڑا رہے گا، مگر جو توبہ کرے اور ایمان لے آئے اور نیک عمل کرتا رہے سو ایسے لوگوں کو اللہ ان کی بدیوں کی جگہ انہیں نیکیاں عنایت فرمائے گا۔‘‘ اس آیت سے یہ واضح ہے کہ جو شخص توبہ کرے یہاں تک کہ قتل سے بھی تو اللہ اس کی برائیوں کو اچھائیوں میں تبدیل کر دے گا۔ بنی اسرائیل سے ایک شخص جب ننانوے قتل کر چکا، تو اللہ تعالیٰ نے اس کے دل میں توبہ کرنے کا خیال پیدا کر دیا، وہ ایک عابد شخص کے پاس آیا اور اس سے کہنے لگا: میں نے ننانویں آدمیوں کو قتل کر ڈالا ہے، کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے؟ عابد نے اس معاملہ کو سنگین خیال کرتے ہوئے کہا کہ تیری توبہ قبول نہیں ہو سکتی، اس پر اس نے اسے بھی قتل کر ڈالا اور اس طرح سو کی تعداد پوری کر دی، پھر اسے ایک عالم کے پاس جانے کو کہا گیا، وہ اس کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: میں سو آدمیوں کا قاتل ہوں ، کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے؟ اس نے کہا: ہاں ، تیرے اور توبہ کے درمیان کون حائل ہو سکتا ہے؟ مگر اس بستی کے لوگ ظالم ہیں ، تو فلاں بستی میں چلا گیا، اس میں اہل خیر اور نیک لوگ رہتے ہیں ، اس پر وہ اپنے شہر سے لے کر خیر وبھلائی والے شہر کی طرف ہجرت کر گیا، ابھی وہ راستے ہی میں تھا کہ اسے موت نے آلیا۔ اب رحمت اور عذاب کے فرشتے جھگڑنے لگے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ صادر فرمایا کہ دونوں بستیوں کے درمیان فاصلے کی پیمائش کر لو، وہ جس بستی کے زیادہ قریب ہوگا اس کا شمار اس بستی والوں میں سے ہوگا۔ جب پیمائش کی گئی تو معلوم ہوا کہ وہ نیک لوگوں کی بستی کے زیادہ