کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 181
تیسرا جواب: یہ جملہ تقدیر شرط پر مبنی ہے، یعنی اگر اللہ اسے سزا دے تو اس کی اصل سزا خلود فی النار ہے۔ مگر یہ جواب بھی محل نظر ہے؟ اس لیے کہ اس صورت میں ﴿فَجَزَآؤُہٗ جَہَنَّمُ﴾ کا کیا فائدہ ہوا؟ اگر اللہ اسے سزا دے تو اس کی سزا یہ ہے، تو اس کا معنی یہ ہوا کہ اب وہ خلود فی النار کا مستحق ہوگیا، اس طرح وہ پہلے والی مشکل دوبارہ پیدا ہو جائے گی جس سے ہم خلاصی نہیں پا سکیں گے۔
ان تین جوابات میں سے ہر جواب پر کوئی نہ کوئی اعتراض ضرور وارد ہوتا ہے۔
چوتھا جواب: یہ سبب ہے مگر جب کوئی مانع سامنے آئے گا تو سبب نافذ نہیں ہوگا، جس طرح کہ ہم کہتے ہیں : قرابت وراثت کا سبب ہے، لیکن اگر قرابت دار غلام ہوگا تو وارث نہیں بن سکے گا، اور اس کی وجہ مانع کا وجود ہے جو کہ غلامی ہے، قتل عمد خلود فی النار کا سبب ہے، مگر جب قاتل مومن ہوگا تو وہ جہنم میں ہمیشہ نہیں رہے گا۔ مگر اس پر بھی یہ اشکال وارد ہوتا ہے کہ پھر اس وعید کا فائدہ کیا ہوا؟
اس کا جواب یہ ہے کہ مومن کو عمداً قتل کرنے والے شخص نے وہ سبب اختیار کر لیا جس کی وجہ سے وہ جہنم میں ہمیشہ رہے گا، اس صورت میں مانع کے وجود میں آنے کا احتمال ہے، وہ وجود میں آ بھی سکتا ہے اور نہیں بھی۔ لہٰذا وہ سنگین خطرے کے کنارے پر کھڑا ہے۔ اسی لیے نبی کریم علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا: ’’بندہ مومن اپنے دین سے فراخی میں رہتا ہے جب تک وہ حرام خون کا ارتکاب نہ کرے۔‘‘[1] یعنی جب حرام خون کا ارتکاب کرے گا تو دین میں تنگ ہو جائے گا، یہاں تک کہ اس سے نکل جائے گا۔
اس بنا پر اس جگہ وعید انجام کے اعتبار سے ہوگی اس لیے کہ یہ خدشہ موجود ہے کہ یہ قتل اس کے کفر کا سبب بن سکتا ہے اگر ایسا ہوا تو وہ کفر پر مرے گا اور جہنم میں ہمیشہ رہے گا۔
اس تقدیر پر آیت میں سبب کے سبب کا ذکر ہے، قتل عمد انسان کے کفر پر مرنے کا سبب ہے اور کفر خلود فی النار کا۔ میرے خیال میں اگر انسان اس میں غور وفکر سے کام لے تو اسے اس میں کوئی اشکال نظر نہیں آئے گا۔
پانچواں جواب: خلود سے مراد مکث طویل ہے، نہ کہ مکث دائم، اس لیے کہ عربی زبان میں خلود کا اطلاق مکث طویل پر بھی ہوتا ہے، کہا جاتا ہے: فلاں شخص قید میں ہمیشہ رہے گا، جبکہ ایسا ہوتا نہیں ، عرب کہتے ہیں : فلاں شخص پہاڑوں کی طرح ہمیشہ رہے گا، حالانکہ سبھی کے علم میں ہے کہ انہیں اڑا دیا جائے گا اور زمین چٹیل میدان کی طرح رہ جائے گی۔
یہ جواب آسان ہے اور اسے سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ اللہ تعالیٰ نے تائید کا ذکر نہیں کیا، یعنی اس نے یہ نہیں کہا:خالدا فیہا ابدا۔بلکہ یوں فرمایا: ﴿خٰلِدًا فِیْہَا﴾ جس کا معنی یہ ہے کہ وہ جہنم میں عرصہ دراز تک پڑا رہے گا۔
چھٹا جواب:یہ باب وعید سے ہے اور وعید کے خلاف جانا جائز ہوتا ہے، اس لیے کہ یہ عدل سے کرم کی طرف انتقال ہے، جو کہ لائق ستائش ہے۔
[1] صحیح بخاری: ۶۸۶۲ عن ابن عمر رضی اللہ عنہ ۔