کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 180
گناہ گار تو ہوگا مگر آیت میں مذکورہ وعید کا مستحق نہیں ہوگا۔ رہا منافق، تو وہ جب تک اپنے نفاق کا اعلان نہ کرے۔ ظاہراً معصوم الدم ہوگا۔ [مُّتَعَمِّدًا]… یہ لفظ کم سن اور غیر عاقل کے اخراج پر دلالت کرتا ہے، اس لیے کہ ان کا قصد وارادہ اور عہد معتبر نہیں ہوتا۔ اس طرح یہ لفظ قتل خطا کے مرتکب کے اخراج پر بھی دلالت کرتا ہے۔ بندہ مومن کو عمداً قتل کرنے والے شخص کو یہ سنگین سزا دی جائے گی۔ [جَہَنَّمُ] …آگ کا ایک نام۔ [خٰلِدًا فِیْہَا] … یعنی اس میں ہمیشہ ٹھہرے گا۔ [وَغَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ] … صفت غضب اللہ تعالیٰ کے لیے اس کے شایان شان ثابت ہے، اس کا شمار اس کی صفات فعلیہ میں ہوتا ہے۔ [وَلَعَنَہٗ] … لعنت کا معنیٰ ہے: بھگا دینا اور اللہ کی رحمت سے دور کر دینا۔ قتل عمد کی یہ چار قسم کی سزا ہے اور پانچویں سزا اس ارشاد ربانی میں مذکور ہے: ﴿وَاَعَدَّلَہٗ عَذَابًا عَظِیْمًا﴾ (النساء: ۹۳) یعنی اس کے لیے عذاب عظیم تیار ہے۔ قتل بالعمد کی یہ پانچ سزائیں ہیں مگر ایمان سے معمور دل والوں کو اس جرم سے روکنے کے لیے ایک سزا ہی کافی ہے۔ اہل سنت کے نزدیک خلود فی النار کی سزا صرف کفر پر مرتب ہوتی ہے جبکہ قتل کفر نہیں ہے، تو پھر اس پر یہ سزا کس طرح مرتب ہوگی؟اس کے کئی جواب دیئے گئے ہیں : پہلا جواب: یہ مومن کو قتل کرنے والے کافر کی سزا ہے۔ مگر اس قول کی کوئی اہمیت نہیں ، اس لیے کہ کفر کی سزا ہی خلود فی النار ہے، اگرچہ کافر کسی مومن کو قتل کرنے کا نہ ہی مرتکب ہوا ہو۔ ﴿اِنَّ اللّٰہَ لَعَنَ الْکٰفِرِیْنَ وَ اَعَدَّ لَہُمْ سَعِیْرًاo خٰلِدِیْنَ فِیْہَآ اَبَدًا لَا یَجِدُوْنَ وَلِیًّا وَّ لَا نَصِیْرًاo﴾ (الاحزاب: ۶۴۔ ۶۵) ’’بیشک اللہ تعالیٰ نے کافروں پر لعنت کی اور ان کے لیے بھڑکنے والا عذاب تیار کیا، وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے، وہاں نہ وہ کوئی دوست پائیں گے اور نہ مددگار۔‘‘ دوسرا جواب: یہ قتل مومن کو جائز سمجھنے والے کی سزا ہے، اس لیے کہ قتل مومن کو حلال سمجھنے والا کافر ہے۔ مگر امام احمد اس جواب پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ قتل مومن کو حلال خیال کرنے والا تو ویسے ہی کافر ہے اگرچہ وہ اس کا ارتکاب نہ ہی کرے۔ وہ تو کسی مومن کو قتل کیے بغیر ہی جہنم میں ہمیشہ رہنے کی سزا بھگتے گا، لہٰذا یہ جواب بھی غیر مستقیم ہے۔