کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 18
یہ اس لیے کہ سب لوگ ایک اللہ کے لیے پیدا کیے گئے، اور ان کی تخلیق اسی کی عبادت کے لیے عمل میں آئی تاکہ ان کے دل ازراہ عبودیت و تعظیم، خوف و رجار، رغبت و رہبت اور توکل اس کے ساتھ متعلق ہو جائیں ، یہاں تک کہ وہ ہر اس دنیوی چیز سے کنار اکشی اختیار کر لیں جو اُن اُمور میں عقیدہ توحید باری تعالیٰ میں ان کے معاون ومددگار نہ بن سکیں ، اس لیے کہ آپ مخلوق ہیں اور اس اعتبار سے آپ کے لیے ضروری ہے کہ ہر چیز میں قلب و قالب کے اعتبار سے اپنے خالق کے بن کر رہیں ، یہی وجہ ہے کہ تمام انبیاء ورسل کی دعوت اس اہم اور امر عظیم کی طرف ہی رہی جو کہ اللہ وحدہ لاشریک لہ کی عبادت سے عبارت ہے۔
جن رسولوں کو اللہ رب العزت نے انسانوں کی رشد و ہدایت کے لیے مبعوث فرمایا وہ توحید الوہیت کی دعوت، توحید ربوبیت کے مقابلہ میں زیادہ زور و شور کے ساتھ دیا کرتے تھے، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ توحید ربوبیت کے منکرین کی تعداد بہت کم رہی ہے، حتی کہ جن لوگوں نے بظاہر اس سے انکار کیا وہ بھی دلی طور پر اس کا انکار نہ کر سکے۔ بجز اس صورت کے کہ ان سے کم از کم ادراک کرنے کی صلاحیت سے متصف عقلیں بھی سلب کر لی جائیں ایسے لوگوں کا یہ رویہ انکار حق کے زمرے میں آتا ہے۔
توحید کی قسمیں
علماء رحمہم اللہ نے توحید کو مندرجہ ذیل تین قسموں میں تقسیم کیا ہے:
۱۔ توحید ربوبیت:… اس کا مطلب ہے: خلق، ملک اور تدبیر میں اللہ تعالیٰ کو ایک ماننا۔ اس کی دلیل یہ ارشاد باری ہے: ﴿اَ لَا لَہُ الْخَلْقُ وَ الْاَمْرُ﴾ (الاعراف:۵۴)’’خبر دار اسی کے لیے خاص ہے آفرینش بھی اور حکومت بھی۔‘‘
اس آیت میں اس مفہوم پر وجہ دلالت یہ ہے کہ اس میں خبر کو مقدم کیا گیا ہے جبکہ اس کا اصل حق تاخیر تھا، اور قاعدہ بلاغیہ یہ ہے کہ استحقاق کی رو سے موخر کو مقدم لانا حصر کا فائدہ دیتا ہے، مزید برآں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ آیت کا آغاز حرف ’’الا‘‘ کے ساتھ کیا گیا جو کہ تنبیہ اور تاکید پر دلالت کرتا ہے، خلق سے مراد آفرینش جبکہ امر سے مراد تدبیر ہے، جہاں تک ملک کا تعلق ہے تو اس کی دلیل یہ ارشاد ربانی اور اس جیسی دیگر قرآنی آیات میں ﴿وَلِلّٰہِ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ﴾ (الجاثیہ:۲۷)’’اور اللہ ہی کے لیے ہے بادشاہت آسمانوں کی اور زمین کی۔ ‘‘
یہ آیت کریمہ رب تعالیٰ کے افراد بالملک پر دلالت کرتی ہے اس جگہ بھی گزشتہ آیت کی طرح ألتقدیم ماحقہ التاخیر ہے۔اس سے ثابت ہوا کہ اللہ عزوجل خلق، ملک اور تد بیر کے ساتھ منفرد ہے۔
اس جگہ یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ قرآن مجید اور احادیث نبویہ میں متعدد مقامات پر غیر اللہ کے لیے خلق کا اثبات کیا گیا ہے، مثلاً ارشاد ہوتا ہے:
﴿فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ o﴾ (المومنون:۱۴)
’’بابرکت ہے اللہ جو سب سے بہترین پیدا کرنے والا ہے۔‘‘