کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 178
’’اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے۔‘‘
شرح:… اس آیت کا شمار آیات رضیٰ میں ہوتا ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ موصوف بالرضی ہے، وہ عمل سے بھی راضی ہوتا ہے اور عامل سے بھی۔یعنی اللہ تعالیٰ کی رضیٰ کا تعلق عمل کے ساتھ بھی ہے اور عامل کے ساتھ بھی۔عمل کی مثال یہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَاِِنْ تَشْکُرُوْا یَرْضَہُ لَکُمْ﴾ (الزمر: ۷) ’’اگر تم شکر کرو گے تو وہ اسے تمہارے لیے پسند کرے گا۔‘‘
نیز یہ ارشاد ربانی:
﴿وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا﴾ (المائدۃ: ۳)’’اور میں نے اسلام کو تمہارے لیے بطور دین کے پسند کیا۔‘‘
اور جس طرح ایک صحیح حدیث میں آتا ہے کہ ’’بیشک اللہ تعالیٰ تمہارے لیے تین چیزوں کو پسند کرتا ہے اور تین کو ناپسند…!!‘‘[1]
یہ رضیٰ عمل سے متعلق ہے، اسی طرح رضیٰ عامل سے بھی متعلق ہوا کرتی ہے، مثلاً یہی آیت جسے مؤلفؒ نے ذکر کیا ہے: ﴿رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمْ وَ رَضُوْا عَنْہُ﴾ (المائدۃ: ۱۱۹) ’’اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے۔‘‘
صفت رضیٰ، اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت ہے جو کہ اس کی ذات میں ہے اور اس سے منفصل نہیں ہے، جس طرح کہ معطلہ کا دعویٰ ہے۔
اگر کوئی شخص آپ سے رضیٰ کی تفسیر کرنے کا مطالبہ کرے اور کہے کہ آپ کے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں ہے، اس لیے کہ رضیٰ انسان میں صفت غریزیہ ہے اور کسی انسان کے لیے غرائز کی تفسیر ان کے لفظوں سے زیادہ واضح اور جلی کرنا ممکن نہیں ہے۔ مگر ہم اس کی تفسیر یہ کریں گے کہ رضی اللہ تعالیٰ کی صفت ہے، یہ حقیقی صفت ہے اور اس کا تعلق اللہ تعالیٰ کی مشیت کے ساتھ ہے اور یہ صفات فعلیہ میں سے ہے۔
اللہ تعالیٰ مومنوں ، پرہیزگاروں ، عدل کرنے والوں اور شکر گزاروں سے راضی ہوتا ہے اور کافروں ، فاسقوں اور منافقوں سے راضی نہیں ہوتا، بعض لوگوں کو پسند کرتا ہے اور بعض کو پسند نہیں کرتا، بعض اعمال کو پسند کرتا ہے اور بعض کو ناپسند کرتا ہے۔
جیسا کہ ہم نے پہلے بتایا اللہ تعالیٰ کا صفت رضیٰ کے ساتھ متصف ہونا سمعی اور عقلی دلائل سے ثابت ہے۔ اس کا اطاعت گزاروں کو ان کے اعمال وطاعات پر اجر وثواب سے نوازنا اس کی رضیٰ پر دلالت کرتا ہے۔
اگر آپ یہ کہیں کہ آپ کا اللہ کی رضیٰ پر ثواب دینے سے استدلال کرنا متنازع فیہ ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کبھی کبھی فاسق شخص کو شکر گزار سے بھی زیادہ نعمتیں عطا کرتا ہے۔
مگر اس کا جواب یہ ہے کہ رب تعالیٰ کی طرف سے معصیت پر مصر فاسق کو عطا کرنا استدراج ہے۔ ایسا اس کی رضیٰ کی وجہ سے نہیں ہے، جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:
﴿وَ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا سَنَسْتَدْرِجُہُمْ مِّنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُوْنَo وَ اُمْلِیْ لَہُمْ اِنَّ کَیْدِیْ
[1] صحیح مسلم: ۱۷۱۵ عن ابی ہریرۃ رضی اللہ عنہ ۔