کتاب: شرح عقیدہ واسطیہ - صفحہ 174
مغفرسے ماخوذ ہے اور یغفر (خود) ایک ایسی چیز ہے جسے فوجی جنگ کے دوران تیروں وغیرہا سے بچنے کے لیے سر پر پہنتا ہے۔ اس سے دو فائدے حاصل ہوتے ہیں ، ایک تو سر چھپ جاتا ہے دوسرے تیروں سے محفوظ رہتا ہے، اس اعتبار سے۔
الْغَفُوْرُ وہ ہے جو اپنے بندوں کے گناہوں کی پردہ پوشی کرتا اور پھر انہیں معاف کر کے انہیں ان کی سزاؤں سے بچاتا ہے۔ اس معنی کی دلیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے: ’’اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اپنے بندے کے ساتھ علیحدگی میں جا کر اس سے اس کے گناہوں کا اعتراف کرواتے ہوئے فرمائے گا: تو نے یہ عمل کبھی کیا، تو نے یہ گناہ بھی کیا… یہاں تک کہ وہ سب کا اقرار کرلے گا۔ اس پر اللہ فرمائے گا: میں نے دنیا میں تیرے یہ گناہ چھپائے رکھے اور آج میں انہیں معاف کرتا ہوں۔‘‘[1]
الرَّحِیْمُ ہمہ گیر رحمت والا۔ اس کے بارے میں تفصیلی بحث پہلے ہو چکی ہے۔
اس آیت میں مندرجہ ذیل اسماء: الغفور، الرحیم اور مندرجہ ذیل صفات مذکورہ ہیں : مغفرت، رحمت۔
ساتویں آیت: ﴿فَاللّٰہُ خَیْرٌ حٰفِظًا وَّ ہُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ﴾ (یوسف: ۶۴) ’’پس اللہ ہی بہتر حفاظت کرنے والا اور سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔‘‘
یہ بات حضرت یعقوب علیہ السلام نے حضرت یوسف علیہ السلام کے حقیقی بھائی کو اپنے دوسرے بیٹوں کے ساتھ عزیز مصر کے پاس بھیجتے وقت کہی تھی اسے بھیجنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے ان سے کہا تھا کہ آئندہ کے لیے تمہیں غلہ اسی صورت میں ملے گا جب تم اپنے بھائی کو اپنے ساتھ لے کر آؤ گے۔ انہوں نے جب یہ پیغام اپنے والد محترم تک پہنچایا تو انہوں نے اسے وداع کرتے وقت فرمایا:
﴿ہَلْ اٰمَنُکُمْ عَلَیْہِ اِلَّا کَمَآ اَمِنْتُکُمْ عَلٰٓی اَخِیْہِ مِنْ قَبْلُ فَاللّٰہُ خَیْرٌ حٰفِظًا وَّ ہُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَo﴾ (یوسف: ۶۴)
’’اس نے کہا: کیا میں اس پر تمہارا اسی طرح اعتبار کروں جیسے میں نے اس سے پہلے اس کے بھائی پر تمہارا اعتبار کیا تھا، پس اللہ ہی بہتر حفاظت کرنے والا اور سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔‘‘
یعنی اس کی حفاظت تم نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔ عربوں کے اس قول کی طرح’’اگر ساری مخلوق کی رحمتیں بھی جمع کرلی جائیں تو اللہ کی رحمت پھر بھی بھاری اور عظیم الشان ہوگی۔‘‘
[خَیْرٌ حٰفِظًا]… (حافظہا) علماء فرماتے ہیں : یہ تمییز ہے: للہ درہ فارسا۔ یعنی وہ کس قدر بلند پایہ شہسوار ہے۔ ایک دوسرے قول کی رو سے یہ ﴿فَاللّٰہُ خَیْرٌ﴾ میں (خیر) کے فاعل سے حال ہے۔
آیت میں شاہد: ﴿وَ ہُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ﴾ ہے، جس میں اللہ کے لیے نہ صرف یہ کہ رحمت کا اثبات کیا گیا ہے۔ بلکہ اس امر کو بھی واضح کیا گیا ہے کہ وہ سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔
مخلوق کی مخلوق کے ساتھ رحمت کے حوالے سے ماں کی رحمت اپنی اولاد کے ساتھ سب سے زیادہ ہوتی ہے، یہ ایسی
[1] ملاحظہ فرمائیں : صحیح بخاری: ۲۴۴۱۔ صحیح مسلم: ۲۷۶۸۔